loading...

سید ابوعماد حیدری

اہل سنت اور وھابیت کے شبھات کے جوابات، مذھب اہل بیت کی حقانیت ، کتب سے سکین پیجز

بازدید : 744
شنبه 8 فروردين 1399 زمان : 2:43
آرشیو نظرات
  • 1
  • 2
  • 3
  • 4
  • 5

سید ابوعماد حیدری

معاویہ رسول اللہ کے اقوال میں

حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی معاویہ کے بارے میں احادیث اھل سنت کے منابع میں کثرت سے موجود ہیں۔ جن میں کچھ احادیث اس فصل میں پیش کی جاتی ہے ۔

معاویہ احادیث نبی میں مطعون

معاویہ وہ شخص ہے کہ جس پر رسول اللہ نے خود نام لے کر لعنت کی ہے اور رسول اللہ کی لعنت اھل سنت کی کتابوں میں صحیح الاسناد روایت میں ذکر ہے کہ جن میں سے کچھ روایات مندرجہ ذیل ہیں

المختصر فی اخبار البشر اور تاریخ طبری سمیت اھل سنت کے باقی کئی کتب میں یہ روایت ذکر ہے کہ
ورأى النبی صلى الله علیه وسلم أبا سفیان مقبلاً ومعاویة یقوده، ویزید أخو معاویة یسوق به، فقال: " لعن الله القائد والراکب والسائق "

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ نے ابوسفیان کو آتے ہوئے دیکھا معاویہ اس کے آگے تھا اور یزید اس کے پیچھے تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا کہ اللہ لعنت کرے اس پر جو آگے جا رہا ہے اور اس پر جو پیچھے جارہا ہے اور اس پر کہ جو سوار ہے ۔

جب کہ وقعہ صفین میں یہ روایت عبد اللہ بن عمر سے نقل ہے کہ

عن على بن الأقمر عن عبد الله بن عمر

خرج من فج فنظر رسول الله إلى أبى سفیان وهو راکب ومعاویة وأخوه، أحدهما قائد والآخر سائق، فلما نظر إلیهم رسول الله صلى الله علیه وسلم قال: " اللهم العن القائد والسائق والراکب "قلنا:أنت سمعت رسول الله صلى الله علیه وسلم ؟ قال: نعم،

عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ابو سفیان کو دیکھا ابو سفیان سوار تھا اور معاویہ اور اس کا بھائی کہ جن میں سے ایک سواری کے آگے تھا اور دوسرا پیچھے جب رسول اللہ نے‌‌ان‌کو دیکھا تو رسول اللہ نے فرمایا کہ اے اللہ تو لعنت کر اس پر جو سوار ہے اور اس پر جو آگے ہے اور اس پر جو پیچھے ہے ۔

ہم نے کہا کہ اے عبد اللہ بن عمر کیا تم نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سے سنا ہے ؟ تو عبد اللہ بن عمر نے کہا کہ جی ہاں میں نے خود سنا ہے

کتاب صفین میں مزید ذکر ہے کہ

عن عبد الغفار بن القاسم، عن عدى بن ثابت عن البراء بن عازب قال: أقبل أبو سفیان ومعه معاویة ؟ فقال رسول الله صلى الله علیه وسلم: " اللهم العن التابع والمتبوع.

راوی کہتا ہے کہ ابوسفیان آیا اور اس کے ساتھ معاویہ بھی تھا تو رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا کہ اللہ لعنت کرے اس پیروی کرنے والے اور جس کی پیروی کی جاتی ہے ۔

اس کے علاوہ بہت سارے شواھد اور بھی موجود ہیں کہ جن کو اس لئے ترک کیا جاتا ہے تا کہ بحث طولانی نہ ہو ۔

معاویہ اور عمروعاص دونوں کا جمع ہونا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے مولا علی کے خلاف لڑنے والوں کو تفصیل سے بیان کیا ہے کہ جن میں سے معاویہ سرفہرست ہے ، حتی معاویہ کے ساتھیوں کے بارے میں بھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ نے احادیث بیان فرمائی ہیں۔ مثلا معاویہ کا دیرینہ ساتھی اور ہر مشکل میں مدد کرنے والا اور صفین میں ایک مکر کے ذریعے سے معاویہ کو مالک اشتر رحمۃ اللہ علیہ کی تلوار سے بچانے والا عمرو بن عاص کے بارے میں بھی رسول اللہ کے ارشادات گرامی‌موجود ہیں ۔جیسا کہ وقعۃ صفین میں ذکر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا کہ

إذا رأیتم معاویة وعمرو بن العاص مجتمعین ففرقوا بینهما، فإنهما لن یجتمعا على خیر

جب بھی تم معاویہ اور عمرو بن عاص کو ساتھ دیکھو تو‌‌ان‌دونوں کے درمیان میں جدائی ڈال دو کیونکہ یہ دونوں خیر پر جمع نہیں ہوتے ۔

یہ تو تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ جب بھی معاویہ اور عمروعاص جمع ہوئے ہیں ‌‌ان‌دونوں کے شر ہی نے جنم لیا ہے ۔ مولا علی کی حکومت میں جو سب سے زیادہ مشکلات پیش آئی تھی وہ‌‌ان‌دونوں کے جمع ہونے سے ہیں ۔

معاویہ کا محشور ہونا

شیعہ اور سنی دونوں کی کتابوں میں رسول اللہ کی فراواں احادیث معاویہ کی موت کے بارے میں یا اس کی حشر کے بارے میں ذکر ہیں کہ جس میں اھل سنت کی کتاب انساب الاشراف میں ذکر ہے کہ

وحدثنی إسحاق وبکر بن الهیثم قالا حدثنا عبد الرزاق بن همام انبأنا معمر عن ابن طاوس عن أبیه عن عبد الله بن عمرو بن العاص قال: کنت عند النبی صلى الله علیه وسلم فقال : یطلع علیکم من هذا الفج رجل یموت على غیر ملتی، قال: وکنت ترکت أبی قد وضع له وضوء، فکنت کحابس البول مخافة أن یجیء، قال: فطلع معاویة فقال النبی صلى الله علیه وسلم : هو هذا.

عبد اللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کے پاس تھا رسول اللہ نے فرمایا کہ ایک ایسا شخص آرہا ہے کہ جس کی موت غیر اسلام پر ہوگی ۔ اور میرا والد وضو کر رہاتھا اور میں بہت پریشان تھا اس شخص کی طرح کہ جس نے بہت وقت سے اپنا پیشاب روک کر رکھا ہو اس وجہ سے پریشان تھا کہ ایسا نہ ہو میرا باپ آئے { اور اس حدیث کا مصداق بنے } عبداللہ بن عمروعاص کہتے ہیں کہ معاویہ آگیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے کہا کہ یہی وہ ہے جس کی موت غیر اسلام پر ہوگی ۔

یہی روایت تاریخ طبری میں بھی ذکر ہے کہ

أن رسول الله صلى الله علیه و سلم قال یطلع من هذا الفج رجل من أمتی یحشر على غیر ملتی فطلع معاویة

رسول اللہ نے فرمایا کہ ایک ایسا شخص آئے گا جو غیر اسلام پر محشور ہوگا تو معاویہ آیا۔

اور یہی روایت وقعۃ صفین میں عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے کہ

عن عبد الله بن عمر قال: أتیت النبی صلى الله علیه وسلم فسمعته یقول: " یطلع علیکم من هذا الفج رجل یموت حین یموت وهو على غیر سنتى ".

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کو فرماتے ہو ئے سنا کہ وہ آرہا ہے کہ جو مرے گا لیکن وہ میری سنت پر نہیں ہوگا۔

روایات میں ذکر ہے کہ معاویہ کا ٹھکانہ جھنم ہے اور وہ جھنم جائیگا کیونکہ تاریخ طبری سمیت باقی کتب میں لکھا ہے کہ

إن معاویة فی تابوت من نار فی أسفل درک منها ینادی یا حنان یا منان الآن وقد عصیت قبل وکنت من المفسدین

اور وہاں ندائے دے گا کہ یا حنان یا منان میں نے دنیا میں معصیت کی ہے اور میں مفسدین میں سے تھا

اور یہی حدیث عبد اللہ بن عمر سے بھی ہے ۔

قال عبد الله بن عمر إن معاویة فی تابوت فی الدرک الأسفل من النار.

ابن عمر سے روایت ہے کہ معاویہ جھنم کے سب سے نیچھلے درجے میں آگ کی تابوت میں ہوگا

معاویہ کو منبر پر دیکھ کر قتل کرنے کا حکم

رسول اللہ کی حدیث ہے کہ جب معاویہ کو میرے منبر پر دیکھو تو اسے قتل کرو ۔ یہ حدیث مختلف سندوں سے نقل ہوئی ہے جن کی سند سے بحث علامہ امینی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب الغدیر جلد نمبر ۱۰ ص ۱۴۳ پر تفصیل سے کی ہے۔

وقعۃ صفین میں جناب حسن بصری سے یہ حدیث نقل ہے کہ

عن الحسن قال: قال رسول الله صلى الله علیه وسلم: " إذا رأیتم معاویة على منبرى یخطب فاقتلوه "

کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ معاویہ کو جب میرے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے دیکھو تو اسے قتل کردو ۔

یہی حدیث مختلف الفاظوں کے ساتھ تاریخ طبری میں نقل ہوئی ہے کہ

أن رسول الله صلى الله علیه و سلم قال إذا رأیتم معاویة على منبری فاقتلوه

رسول اللہ نے فرمایا کہ جب تم معاویہ کو میرے منبر پر دیکھو تو اسے قتل کردو ۔

یہ حدیث یخطب علی منبری فاضربوا عن قه کے الفاظ کے ساتھ بھی نقل ہوئی ہے ۔

یہ حدیث ابو سعید اور عبداللہ بن مسعود سے مختلف کتابوں میں روایت ہے اور ابوسعید کی روایت میں تو یہ بھی لکھا ہے کہ ابو سعید نے کہا کہ ہم نے معاویہ کو رسول اللہ کے منبر پر دیکھا لیکن اسے قتل نہیں کیا لہذا اسی وجہ سے ہم کامیباب و سرخرو نہیں ہوئے۔

ابو سعید نے درست فرمایا تھا کہ معاویہ کو قتل نہ کرنے کی وجہ سے کامیاب نہ ہوئے ۔ اگر رسول اللہ کی حدیث پر عمل ہوچکا ہوتھا تو نہ فقط قرن اول کے لوگ مصیبتوں سے نجات حاصل کرتے بلکہ آج تک سارے مسلمانوں کو جتنے مشکلات درپیش آئے ہیں وہ کبھی نہ ہوتے ۔ کیونکہ‌‌ان‌تمام مشکلات کی جڑ معاویہ اور وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے معاویہ کو ایسے منصبوں پر فائز کیا اور معاویہ کو عالم اسلام پر مسلط کرنے میں ملوث رہے ۔

صواعق المحرقہ میں ایک حدیث مذکور ہے کہ

و قیل لسعید بن جمهان إن بنی أمیة یزعمون أن الخلافة فیهم فقال کذب بنو الزرقاء بل هم ملوک من شر الملوک

سعید بن جمہان کو کہا گیا کہ بنی امیہ یہ گمان کرتے ہیں کہ خلافت کے فقط وہی حقدار ہیں تو سعید بن جمہان نے کہا بنو زرقاء نے جھوٹ بولا ہے بنی امیہ تو ملوک ہیں وہ بھی شریر ترین ملوک۔

بنی امیہ کی شر کی وجہ سے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے‌‌ان‌کے اوپر منبر کو حرام کیا تھا‌‌ان‌کی شر کی وجہ سے‌‌ان‌پر اللہ نے قران میں لعنت کی ہے جیسا کہ ڈاکٹر طہ حسین نے تمام وھابی متعصب مفتیوں کو کہا ہے کہ معاویہ کے فضائل ثابت کرنے سے پہلے قرآن میں موجود شجرہ ملعونہ کی تفسیر کرو۔

معاویہ کا پیٹ

معاویہ کے پیٹ کے بارے میں بحث کرنے سے پہلے سنن ابی داوود سے ایک حدیث پیش خدمت ہے کہ جو ابو سعید بن معلی سے روایت ہے کہ

عن أبی سعید بن المعلى أن النبی صلى الله علیه و سلم مر به وهو یصلی فدعاه قال فصلیت ثم أتیته قال فقال " ما منعک أن تجیبنی " ؟ قال کنت أصلی قال " ألم یقل الله عزوجل { یا أیها الذین آمنوا استجیبوا لله وللرسول إذا دعاکم }.

ایک دن رسول اللہ ابوسعید کے پاس سے گزر رہے تھے اور ابوسعید بن معلی نماز پڑھ رہے تھے رسول اللہ نے ابو سعید کو پکارا ابو سعید نے نماز پڑھی اور اس کے بعد رسول اللہ کی خدمت میں آیا تو رسول اللہ نے کہا کہ اے ابو سعید جب میں تجھے پکارا تو تم نے مجھ جواب کیوں نہیں دیا ؟ ابوسعید نے کہا کہ یا رسول اللہ میں نماز پڑھ رہا تھا ۔ تو رسول اللہ نے فرمایا کہ کیا اللہ نے نہیں فرمایا ہے کہ اے ایمان والو جب اللہ اور اس کا رسول تمھیں پکارے تو تم جواب دیا کرو،

شیخ البانی نے اس حدیث کو درست کہا ہے ۔

یعنی اگر کوئی نماز بھی پڑھ رہا ہو اور نماز کے دوران رسول اللہ اس کو بلائے تو اس شخص کو نماز کی حالت میں ہی لبیک کہنا چاھئیے اور رسول اللہ کو جواب دینا چاھئیے کیونکہ یہی اللہ اور اس کے رسول کا حکم ہے ۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا معاویہ نے بھی رسول اللہ کی آواز پر لبیک کہا ہے تو اس سوال کا جواب اھل سنت کی کتابوں میں انتہائی کثرت کے ساتھ موجود ہے کہ جس میں معاویہ کے پیٹ کا ذکر ہے صحیح مسلم میں حدیث ہے کہ

عن ابن عباس قال کنت العب مع الصبیان فجاء رسول ال له صلی ال له صلی ال له عل یه وسلم فتواریت خلف باب قال فجاء فحطانی حطا ۃ و قال اذ هب وادع لی معاو یة قال فجئت فقلت هو یاکل قال ثم قال لی اذ هب فادع لی معاو یة قال فجئت فقلت هو یاکل فقال لا اشبع ال له بط نه

ابن عباس سے روایت ہے کہ میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ آئے میں نے اپنے آپ کو دروازے کے پیچھے مخفی کیا ۔ رسول اللہ نے مجھے پشت پر مار کر مجھے کہا کہ جاو معاویہ کو بلاو ۔ میں آیا اور میں نے کہا کہ وہ کھانا کھارہا ہے ۔ رسول اللہ نے پھر کہا کہ جاو معاویہ کو بلاو ۔ میں آیا اور میں نے کہا کہ وہ کھانا کھا رہا ہے ۔ تو رسول اللہ نے کہا کہ خدا اس کا پیٹ نہ بھر دے ۔

اس حدیث سے واضح ہوا کہ معاویہ نے رسول اللہ کا حکم نہیں مانا ۔ رسول اللہ نے بلایا اور کھانا کھانے میں لگا ہوا تھا ۔ جب کہ اللہ اور اس کا رسول کا حکم ہے کہ اگر رسول بلائے تو ضرور لبیک کہو ، اور سنن ابی داوود کی حدیث سے واضح ہوا کہ اگر کوئی نماز بھی پڑھ رہا ہو تب بھی رسول اللہ کو آواز دینا ضروری ہے ۔

ابن کثیر نے اپنی تاریخ میں مسلم کی حدیث کے بعد ابن عباس کا یہ قول بھی لکھا ہے کہ

قال فما شبع بعدها

کہ اس بددعا رسول کے بعد معاویہ کبھی سیر نہیں ہوا۔

اور ابن کثیر نے اس حدیث پر جو استدلال کیا ہے وہ ملاحظہ فرمائیں

وقد انتفع معاویة بهذه الدعوة فى دنیاه وأخراه أما فى دنیاه فانه لما صار إلى الشام أمیرا کان یأکل فى الیوم سبع مرات یجاء بقصعة فیها لحم کثیر وبصل فیأکل منها ویأکل فى الیوم سبع أکلات بلحم ومن الحلوى والفاکهة شیئا کثیرا ویقول والله ما أشبع وإنما أعیا وهذه نعمة ؟ ؟ ومعدة یرغب فیها کل الملوک

اس دعا سے معاویہ نے دنیا وآخرت دونوں میں فائدہ حاصل کیا،دنیا میں اس طرح کہ جب وہ شام پر امیر ہوا تو دن میں سات مرتبہ کھاتا تھا،اس کے لئے ایک پیالہ لایا جاتا جس میں بکثرت گوشت اور پیاز ہوتے تھے.علاوہ ازیں میٹھی اشیاء اور وافر مقدار میں فروٹ ہوتے تھے،وہ اس طرح کی اشیاء دن میں سات مرتبہ کھاتا تھااور کہتا تھا کہ اللہ کی قسم میں کھاتے کھاتے تھک جاتا ہوں مگر سیر نہیں ہوتا
ابن کثیر کا کہنا ہے کہ یہ ایک نعمت ہے کیونکہ ایسامعدہ بادشاہ چاہتے ہیں۔

حافظ ابن کثیرکے اس استدلال پر اب کیا تبصرہ کیا جائے ،بےشک معاویہ کو شاہانہ معدہ ملا تھا مگر اس بد دعا سے معاویہ کو آخرت میں کیا فائدہ ہوگا یہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے .البتہ معاویہ پر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ کھڑے ہو کر خطبہ دینے سے قاصر ہو گیا ۔ ابن ابی شیبہ نے لکھا ہے کہ

قَالَ أَوَّلُ مَنْ خَطَبَ جَالِسًا مُعَاوِیَةُ حِینَ کَبِرَ وَکَثُرَ شَحْمُهُ وَعَظُمَ بَطْنُهُ

سب سے پہلے جس نے بیٹھ کر خطبہ دیا وہ معاویہ ہے جب اس کی چربی بڑی اور زیادہ ہوگئی تھی اور پیٹ بڑھ گیا تھا۔

ابراھیم اور شعبی دونوں کا معاویہ کے بارے میں بیان ہے کہ

قال إبراهیم : أول من جلس فی الخطبة یوم الجمعة معاویة قال الشعبی : أول من خطب جالسا معاویة حین کثر شحمه وعظم بطنه

سب سے پہلا شخص جس نے بیٹھ کر خظبہ دیا ،وہ معاویہ تھا ،یہ اس وقت ہوا جب معاویہ پر چربی زیادہ ہوگئی تھی اور اس کا پیٹ بڑھ چکا تھا ۔

انساب الاشراف میں لکھا ہے کہ

فکان معاویة یقول: لحقتنی دعوةُ رسول الله صلى الله علیه وسلم. وکان یأکل فی کل یوم مرّت أکلاً کثیراً.

معاویہ کہا کرتا تھا کہ رسول اللہ کی دعا مجھ کو لگ گئی ہے ۔ اور معاویہ دن میں کئی مرتبہ کھانا کھاتا تھا ۔

ابن ابی الحدید نے ایک شاعر کا شعر نقل کیا ہے کہ

وصاحب لى بطنه کالهاویه کأن فی أحشائه معاویه

میرا ایک دوست ہے جس کا پیٹ ھاویہ کی طرح ہے { ھاویہ جھنم کا ایک نام ہے } ایسا لگتا ہے کہ اس کے اندر معاویہ ہے۔

لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس حدیث کو بعضوں {ابن کثیر} نے معاویہ کے لئے فضیلت ذکر کی ہے کہ یہ رسول اللہ نے معاویہ کے حق میں دعا کی ہے کہ معاویہ اس دنیا کے کھانوں سے لطف اندوز ہوتے رہے ، اب ایسی فضیلتوں پر کیا بحث ہو سکتی ہے ۔ کیونکہ ایسی باتوں سے صاف پتہ چلتا ہے کہ‌‌ان‌لوگوں نے کوشش کرنی ہے کہ جیسے بھی ہو معاویہ کے لئے کوئی نہ کوئی راستہ نکالا جائے تاکہ رضی اللہ کہنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے ۔

معاویہ ایک باغی گروہ کا سربراہ

معاویہ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی احادیث کی طرف دقت سے توجہ کی جائے تو ہر منصف کو معلوم ہوتا ہے کہ معاویہ ابن ابی سفیان ایک باغی گروہ کا لیڈر تھا جیسا کہ مسلم نیشاپوری نے بھی معاویہ کے باغی ہونے پر دلالت کرنے والی حدیث نقل کی ہے کہ

تقتله الفئة الباغیة یدعوهم إلى الجنة ویدعونه إلى النار

عمار کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا عمار‌‌ان‌کو جنت کی طرف بلائے گا اور وہ عمار کو جھنم کی طرف بلائیں گے ۔

یہ احادیث اھل سنت کے ہاں صحیح السند ہے اور اھل سنت کے کئی تاریخی اور حدیثی کتابوں میں نقل ہوئی ہے اھل سنت کا کوئی ایک مسلک بھی اس حدیث کا انکار نہیں کرتا ۔اس حدیث میں واضح بیان ہے کہ عمار کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا ۔ ساری تاریخی کتابیں گواہ ہیں کہ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو معاویہ کی لشکر نے جنگ صفین میں شہید کیا تھا ۔ پس اس حدیث کی رو سے معاویہ اور اس کے پورے لشکر پر باغی گروہ کا اطلاق ہوتا ہے ۔ اور اس باغی گروہ کی وضاحت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے کی ہے کہ وہ ایسا گروہ ہے جو جھنم کی طرف دعوت دے گا ۔اور قرآن پاک میں اللہ تبارک و تعالی نے باغی گروہ کے حکم کو بیان کیا ہے کہ

وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَیْنَهُمَا فَإِنْ بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى فَقَاتِلُوا الَّتِی تَبْغِی حَتَّى تَفِیءَ إِلَى أَمْرِ اللَّهِ

اگر مومنین کے دو گروہ آپس میں قتال شروع کرے تو‌‌ان‌کے درمیان صلح کرو اگر‌‌ان‌میں سے کوئی ایک گروہ دوسرے گروہ پر بغاوت کرے تو باغی گروہ سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ جائے

باغی گروہ سے لڑنا اللہ کا حکم ہے اور رسول اللہ کی حدیث کے مطابق معاویہ کا گروہ باغی گروہ ہے اور اسی باغی گروہ کا سربراہ معاویہ ہے۔ جب حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو سب لوگوں پر یہ واضح ہوا کہ معاویہ باغی ہے اور اس کے بعد شک میں پڑے ہوئے لوگوں نے مولا علی کی لشکر میں شمولیت اختیار کی ۔ اور جب اس حدیث کا پتہ معاویہ کو چلا تو معاویہ نے پھر ایک دفعہ اھل شام کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اور فورا کہا کہ عمار یاسر کا قاتل میں نہیں بلکہ خود علی ابن ابی طالب ہیں کیونکہ وہی‌‌ان‌کو میدان لے آئے ہیں ۔ جناب حاکم نیشاپوری نے اپنی کتاب مستدرک علی صحیحین میں ایک حدیث نقل کی ہے کہ جس کا متن کچھ یوں ہے کہ

أخبرنی أبو عبد الله محمد بن عبد الله الصنعانی ثنا إسحاق بن إبراهیم بن عباد عن عبد الرزاق عن معمر عن ابن طاوس عن أبی بکر بن محمد بن عمرو بن حزم عن أبیه أخبره قال : لما قتل عمار بن یاسر دخل عمرو بن حزم على عمرو بن العاص فقال : قتل عمار و قد سمعت رسول الله صلى الله علیه و سلم یقول : تقتله الفئة الباغیة فقام عمرو فزعا حتى دخل على معاویة فقال له معاویة : ما شأنک فقال : قتل عمار بن یاسر فقال : قتل عمار فماذا ؟ قال عمرو : سمعت رسول الله صلى الله علیه و سلم یقول : تقتله الفئة الباغیة فقال له معاویة : أنحن قتلناه إنما قتله علی و أصحابه جاؤوا به حتى ألقوه بین رماحنا أو قال سیوفنا

صحیح على شرطهما و لم یخرجاه بهذه السیاقة

راوی کہتا ہے کہ جب عمار بن یاسر شہید ہوئے تو عمرو بن حزم عمرو بن عاص کے پا س آیا اور کہا کہ عمار قتل ہوئے اور میں نے رسول اللہ سے سنا ہے کہ عمار کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا ۔ تو عمرو بن عاص گھبرائے ہوئے کھڑا ہوا یہاں تک کہ معاویہ کے پاس آیا۔ تو معاویہ نے پوچھا کہ تجھے کیا ہوا ہے ۔ عمرو بن عاص نے کہا کہ عمار بن یاسر قتل ہوئے ۔ معاویہ نے کہا کہ عمار قتل ہوا تو کیا ہوا ؟ عمرو عاص نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کو سنا ہے کہ عمار کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا ۔ معاویہ نے کہا کہ اس کو ہم نے قتل نہیں کیا ہے بلکہ اسے تو علی اور علی کے ساتھیوں نے قتل کیا ہے جنہوں نے عمار کو ہمارے تیروں یا تلواروں کے سامنے لایا۔

جناب حاکم نیشاپوری کہتے ہیں کہ یہ حدیث بخاری اور مسلم کی شرائط کے مطابق ہیں لیکن بخاری اور مسلم نے اسی سیاق کے ساتھ نقل نہیں کیا ہے ۔ ذھبی نے بھی اسی حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔

پس واضح ہوا کہ معاویہ نے حکومت کے حصول کے لئے ہر ممکن حربہ استعمال کیا جیسا کہ اس نے صفین میں رسول اسلام کی حدیث میں معنوی تحریف کی کہ ہم نے عمار کو قتل نہیں کیا بلکہ علی نے قتل کیا ہے کیوں کہ علی نے ہی عمار کو میدان جنگ میں لایا ہے ۔ معاویہ کے یہ الفاظ جب مولا علی علیہ السلام کو بتائے گئے تو مولا علی علیہ السلام نے فرمایا کہ پھر تو حضرت حمزہ علیہ السلام کو بھی رسول اللہ نے قتل کیا ہے کیونکہ رسول اللہ نے حمزہ کو میدان میں لایا تھا ۔

معاویہ کے اس قانون کے مطابق تو خلفاء کے فتوحات میں قتل ہونے والے تمام مسلمانوں کے اصلی قاتل خلفاء ہیں کیونکہ انہوں نے ہی مسلمانوں جنگجووں کو میدان بھیجا تھا ۔ جیسا ابوعبیدہ ثقفی جو عمر بن خطاب کے زمانے میں قتل ہوئے تھے پس ابوعبیدہ ثقفی کا اصلی قاتل تو خود عمر بن خطاب ہے ۔

لیکن‌‌ان‌سب کے باوجود ابن تیمیہ نے علی دشمنی کی انتہائ کردی اور کہا ہے کہ معاویہ کا گروہ باغی گروہ نہیں ہے وہ اپنی کتاب منھاج السنہ کہ جس کو علمائ کرام منھاج البدعہ کہتے ہیں لکھتے ہیں کہ

والقتال یوم الجمل وصفین فیه نزاع هل هو من باب قتال البغاة المأمور به فی القران أو هو قتال فتنة القاعد فیه خیر من القائم فالقاعدون من الصحابة وجمهور أهل الحدیث والسنة وأئمة الفقهاء بعدهم یقولون هو قتال فتنة لیس هو قتال البغاة المأمور به فی القران

جمل اور صفین کی قتال میں اختلاف ہے کہ کیا وہ باغیوں کی لڑائی تھی کہ جن کے ساتھ لڑنے کا حکم قرآن میں آیا ہے یا وہ ایک فتنہ کی لڑائی تھی کہ جس میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہے ؟ صحابہ میں سے جنگ میں شریک نہ ہونے والے، اھل سنت و اھل حدیث کے جمہور علماء اور ائمہ فقھاء کہتے ہیں کہ یہ لڑائی فتنے کی لڑائی تھی نہ کہ بغاوت کی کہ جس کے بارے میں قران میں حکم موجود ہیں ۔

جب کہ حافظ زین الدین عبد الرووف المناوی لکھتے ہیں کہ
( عمار تقتله الفئة الباغیة ) أی الظالمة الخارجة عن طاعة الإمام الحق والمراد بهذه الفئة فئة معاویة

باغی گروہ سے مراد یعنی وہ ظالم گروہ جو امام حق کی اطاعت سے خارج ہو اور اس گروہ سے مراد معاویہ کا گروہ ہے ۔

دوسری جگہ پر فرماتے ہیں کہ

) ویح عمار ) بن یاسر ( تقتله الفئة الباغیة ) قال البیضاوی یرید به معاویة وقومه ( یدعوهم الى الجنة ) أی الى سببها وهو طاعة الامام الحق ( ویدعونه الى ) سبب ( النار ) وهو عصیانه ومقاتلته وقد وقع ذلک یوم صفین دعاهم فیه الى الامام ودعوه الى النار وقتلوه

) عمار بن یاسر کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا ۔ ( بیضاوی نے کہا ہے کہ اس گروہ سے مراد معاویہ اور اس کا گروہ ہے ) جن کو عمار جنت کی طرف بلائے گا ( یعنی جنت جانے کی سبب کی طرف بلائے گا اور وہ سبب امام حق کی اطاعت کرنا ہے۔اور وہ باغی گروہ عمار کو جہنم جانے کی سبب کی طرف بلائے گا اور وہ سبب امام حق کی نافرمانی اور اس سے حنگ کرنا ہے ، اور یہ واقعہ صفین کے دن وقوع پذیر ہوا کہ جس دن عمار بن یاسر معاویہ اور اس کے ساتھیوں کو امام کی طرف بلا رہا تھا اور وہ عمار کو جھنم کی طرف بلا رہے تھے اور انہوں نے عمار کو قتل کیا ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ فرماتے ہیں کہ معاویہ کا گروہ باغی گروہ ہے جبکہ ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ نہیں وہ باغی گروہ نہیں ہے ۔ اسی لئے حسن بن فرحان مالکی نے درست کہا ہے کہ ابن تیمیہ نے جتنی کتابیں لکھی ہیں ساری کے ساری کتابوں کے ہر پانچ سطروں میں جھوٹ موجود ہے ۔


أبو الفداء : المختصر فی أخبار البشر باب احمد المعتضد بال له جلد ۱ ص ۱۸۷ ، ا الطبری: تاریخ الأمم والرسل والملوک جلد ۵ ص ۶۲۲

وقعہ صفین جلد ۱ ص ۲۲۰

وقعة صفین جلد ۱ ص ۲۱۸

وقعة صفین جلد ۱ ص ۲۱۸

تاریخ الأمم والرسل والملوک جلد ۵ ص ۶۲۲ الناشر : دار الکتب العلمیة – بیروت الطبعة الأولى ، 1407

وقعة صفین جلد ۱ ص ۲۲۰

و قعة صفین جلد ۱ ص ۲۱۸

وق عة صفین جلد ۱ ص ۲۲۱

تاریخ الأمم والرسل والملوک جلد ۵ ص ۶۲۲ الناشر : دار الکتب العلمیة – بیروت الطبعة الأولى ، 1407

الصواعق المحرقة جلد ۱ ص ۶۶ مؤسسة الرسالة – بیروت الطبعة الأولى ، 1997 تحقیق : عبدالرحمن بن عبدالله الترکی وکامل محمد الخراط

سنن أبی داود جلد ۱ ص ۴۶۱ حدیث 1458 - الناشر : دار الفکر تحقیق : محمد محیی الدین عبد الحمید

شرح ابن ابی الحدید جلد ۴ ص ۵۵ المحقق : محمد أبو الفضل ابراهیم الناشر : دار احیاء الکتب العربیة

منهاج السنة النبویة جلد ۴ ص ۵۰۰ الناشر : مؤسسة قرطبة الطبعة الأولى ، 1406 تحقیق : د. محمد رشاد سالم

التیسیر بشرح الجامع الصغیر جلد ۲ ص ۲۸۷ دار النشر / مکتبة الإمام الشافعی - الریاض - 1408هـ - 1988م الطبعة: الثالثة

مولا علی علیہ السلام نے خلافت کے زمانے میں فدک واپس کیوں نہیں لیا؟

بازدید : 790
جمعه 22 اسفند 1398 زمان : 8:57
آرشیو نظرات
  • 1
  • 2
  • 3
  • 4
  • 5

سید ابوعماد حیدری

مولا علی علیہ السلام نے خلافت کے زمانے میں فدک واپس کیوں نہیں لیا؟

اہل سنت عالم عثمان الخمیس لکھتے ہیں کہ

ثم أن الصحیح فی ذلک أن فدک کانت وقفا لما کان یحتاجه النبی صلى الله علیه وآله وسلم لنفسه وأزواجه وآل بیته وکان أبو بکر رضی الله عنه یدیرها بعد وفاة النبی صلى الله علیه وآله وسلم ثم عمر فی خلافته ثم أعطاها علی لیدیرها وظلت فی ید علی رضی الله عنه فی خلافة عمر وخلافة عثمان وخلافته رضی الله عنهم أجمعین قرابة من عشرین سنة أو یزید حتى توفی (أعنی علی) فأستلمها الحسن فظلت فی یده حتى توفی رضی الله عنه فأخذها الحسین وکانت فی یده حتى توفی رضی الله عنه فکانت بعد ذلک فی ید الحسن بن الحسن المشهور بالحسن المثنی وعلی بن الحسین المشهور بزین العابدین ثم صارت بعد وفاتیهما بید زید بن الحسن بن الحسن .

من القلب الی القلب،ص53

صحیح یہ ہے کہ فدک رسول اللہ کو وقف تھا کہ نبی اکرم اپنی احتیاجات، اپنی بیویوں اور اہل بیت کی احتیاجات اس سے پورے کرے، حضرت ابوبکر رسول اللہ کی وفات کے بعد فدک کی مدیریت کرتے تھے پھر حضرت عمر اپنی خلافت میں مدیریت کرتے تھے پھر یہ فدک مولا علی کو دیا گیا تاکہ وہ مدیریت کرے، مولا علی کے ہاتھوں میں رہا حضرت عمر کے خلافت میں پھر عثمان کی خلافت کے زمانے میں اور مولا علی کی اپنی خلافت میں فدک مولا علی علیہ السلام کے ہاتھوں میں رہا تقریبا ۲۰ سال تک یا اس سے بھی زیادہ ، یہاں تک کہ مولا علی کی وفات ہوئی، پھر امام حسن علیہ السلام کے ہاتھوں میں آیا‌‌ان‌کی وفات کے بعد امام حسین علیہ السلام کے ہاتھوں میں آیا‌‌ان‌کی وفات کے بعد حسن بن حسن المشہور بالحسن المثنی اور علی ابن الحسین المشہور بزین العابدین کے ہاتھوں میں رہا پھر‌‌ان‌کی وفات کے بعد زید بن حسن بن حسن کے پاس تھا،

سید ابوعماد حیدری

صحیح بخاری یا ضعیف بخاری؟ فیصلہ آپ کے اوپر !

بازدید : 715
پنجشنبه 21 اسفند 1398 زمان : 6:28
آرشیو نظرات
  • 1
  • 2
  • 3
  • 4
  • 5

سید ابوعماد حیدری

صحیح بخاری یا ضعیف بخاری؟

فیصلہ آپ کے اوپر !

سکین پیجز کے ساتھ !

سید ابوعماد حیدری

واٹس اپ نمبرز: پاکستان 923149736712 +

ایران: 989365958155 +

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مصطفی ﷺ اور‌‌ان‌کی آل اطہار پر لاکھوں اور کروڑوں سلام

اس تحقیق میں ہم اہل سنت کے سب سے معتبر ترین کتاب صحیح بخاری میں موجود ایسی روایات قارئین کی خدمت میں پیش کرینگے کہ جن کو پڑھ کر قارئین باآسانی یہ فیصلہ کرسکیں گے کہ یہ کتاب نہ فقط یہ کہ صحیح نہیں ہے بلکہ اس کتاب میں اسلام کے چہرے کو مسخ کرکے پیش کیا گیا ہے،

نبی کی احادیث کم اور صحابہ کی باتیں زیادہ:

اس کتاب کا نام جناب بخاری نے الجامع المسد الصحیح المختصر من امور رسول اللہ و سننہ و ایامہ رکھا ہے لیکن در حقیقت اس کتاب میں رسول اللہ سے مروی احادیث کم اور صحابہ کے آثار زیادہ ہیں ، اس بات کی تصدیق ہر وہ شخص بلاشک کرے گا کہ جس کی اس کتاب سے تھوڑی بہت آشنائی ہو،

بخاری میں ٹوٹل احادیث ۷۰۰۰ کم بیش ہیں اور صحیح بخاری کی شرح لکھنے والے ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ

فجمیع ما فی البخاری من المتون الموصولہ بلا تکرر علی التحریر الفا حدیث و ستماۃ حدیث و حدیثان

بخاری میں بغیر تکرار کے احادیث ۲۷۰۲ ہیں،

ھدی الساری مقدمۃ الباری فی شرح البخاری ج ۱ ص ۶۶۸

رسول اللہ ﷺ کو غیر معصوم پیش کرنا اور رسول کی توھین:

حدثنا محمد بن عبید بن میمون أخبرنا عیسى بن یونس عن هشام عن أبیه عن عائشة رضی الله عنها قالت

: سمع النبی صلى الله علیه و سلم رجلا یقرأ فی المسجد فقال ( رحمه الله لقد أذکرنی کذا وکذا آیة أسقطتهن من سورة کذا وکذا )

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاحب کو رات کے وقت ایک سورت پڑھتے ہوئے سنا تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے، اس نے مجھے فلاں آیتیں یاد دلا دیں جو مجھے فلاں فلاں سورتوں میں سے بھلا دی گئی تھیں۔

اسی طرح یہ بھی نقل ہے کہ رسول اللہ نے ظہرین کی نماز کو ۲ رکعت پڑھائی ہے

«عن ابی هریرة قال: صلّی بِنا النبیُّ(ص) الظهرَ و العصرَ، فسلّمَ، فقال له ذوالیدین: الصلاةُ یا رسولَ الله أنقَصَتْ؟ فقالَ النبی(ص) لِأصحابه: أحَقٌّ ما یقولُ؟ قالوا: نعم، فَصلّی رکْعتین اُخْرتین ثمّ سَجَد سَجْدتین»

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر یا عصر کی نماز پڑھائی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو ذوالیدین کہنے لگا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا نماز کی رکعتیں کم ہو گئی ہیں؟ ( کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھول کر صرف دو رکعتوں پر سلام پھیر دیا تھا ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے دریافت کیا کہ کیا یہ سچ کہتے ہیں؟ صحابہ نے کہا جی ہاں، اس نے صحیح کہا ہے۔ تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت اور پڑھائیں پھر دو سجدے کئے۔

اور یہ بھی نقل ہے کہ

رسول اللہ نے نماز ظہر کو پانچ رکعت پڑھائی ہے

«عن عبدالله قال: صَلّی بنا النّبیُ(ص) الظهرَ خمساً، فقیل: أزید فی الصلاه؟ قال: و ما ذاک؟‌ قالوا:‌ صلّیتَ خمساً، فسَجَد بعد ما سَلّم».

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ظہر کی پانچ رکعت نماز پڑھائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کیا نماز ( کی رکعتوں ) میں کچھ بڑھ گیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا بات ہے؟ صحابہ نے کہا کہ آپ نے پانچ رکعت نماز پڑھائی ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کے بعد دو سجدے ( سہو کے ) کئے۔

اسی طرح ایک اور حدیث میں سھو نبی کے موضوع کو صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔

عبد اللہ بن عمر کہتا ہے کہ نبی نے غلط نماز پڑھائی تو نماز کے بعد ہم نے غلطی کی طرف متوجہ کیا تو نبی نے کہا،

«... إنما أنا بشرٌ مِثلُکم، أنْسی کما تَنْسَونَ، فإذا نَسیتُ فذَکِّرونی...».

میں تو تمہارے ہی جیسا آدمی‌ہوں، جس طرح تم بھولتے ہو میں بھی بھول جاتا ہوں۔ اس لیے جب میں بھول جایا کروں تو تم مجھے یاد دلایا کرو اور اگر کسی کو نماز میں شک ہو جائے تو اس وقت ٹھیک بات سوچ لے اور اسی کے مطابق نماز پوری کرے پھر سلام پھیر کر دو سجدے ( سہو کے ) کر لے۔

صحیح بخاری میں رسول اللہ کے بارے میں بہت ایسا کچھ ذکر ہے کہ قلم لکھنے سے شرمندہ ہے البتہ ہم نے فقط اس جہت سے نقل کرنا ہے تاکہ ہمارا دعوا بغیر دلیل نہ رہے [ نقل کفر کفر نباشد]

مثلا بخاری میں کچھ روایات ہیں کہ جو رسول اللہ کو العیاذ باللہ شہوت ران بیان کیا ہے، جیسے

«عن قتادة: أنّ أنَس بن مالک حدّثَهم: أن نبیّ الله(ص) کان یطوفُ علی نسائِه فی اللیلةِ الواحدة، و لَه یومئذٍ تسع نِسوة!»

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تمام ازواج کے پاس ایک ہی رات میں تشریف لے گئے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ازواج میں نو بیویاں تھیں۔

یا اسی طرح ابن عباس سے نقل ہے کہ رسول اللہ نے احرام کی حالت میں شادی کی ہے ،

«حدثنا جابرُ بنُ زید قال: أنْبأنا ابنُ عباس: تزوّجَ النبیّ(ص) و هو مُحرِم».

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( میمونہ رضی اللہ عنہا سے ) نکاح کیا اور اس وقت آپ احرام باندھے ہوئے تھے۔

یا وہ روایات کہ جس میں یہ ملتا ہے کہ رسول اللہ ، عائشہ کو اس کی خوبصورتی کی وجہ سے باقی بیویوں سے زیادہ چاھتے تھے ،

«سَمِعَ ابنُ عباس عن عمرَ دخل علی حفصةَ فقال: یا بنیّةَ لا یَغُرّنکِ هذه التی أعجَبَها حُسنُها حبُّ رسولِ الله(ص) ایّاها. یُرید عایشةَ، فقَصَصْتُ علی رسولِ الله(ص) فتَبَسّمَ».

بیٹی اپنی اس سوکن کو دیکھ کر دھوکے میں نہ آ جانا جسے اپنے حسن پر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پر ناز ہے۔ آپ کا اشارہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف تھا ( عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ) کہ پھر میں نے یہی بات آپ کے سامنے دہرائی آپ مسکرا دیئے۔

اسی طرح عائشہ اور باقی ازواج سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ نے اپنی ازواج کے ساتھ حالت حیض میں بھی جماع کیا ہے، العیاذ باللہ

«عن عایشةَ قالتْ: کانتْ إحدانا إذا کانتْ حائضاً فأرادَ أن یُباشرَها، أمَرَها أنْ تتّزِرَ فی فورِ حیْضتِها، ثُمّ یُباشِرُها»

آپ نے فرمایا ہم ازواج میں سے کوئی جب حائضہ ہوتی، اس حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر مباشرت کا ارادہ کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ازار باندھنے کا حکم دے دیتے باوجود حیض کی زیادتی کے۔ پھر بدن سے بدن ملاتے،

اس روایت کا سکین پیج اگلے صفحے میں ملاحظہ فرمائیں

البتہ عجیب بات یہ ہے رحمت اور اسوہ اخلاق والے رسول اللہ کے بارے میں ایسی باتیں ذکر کی ہیں اور اس کے مقابلے میں حضرت ابوبکر و عمر کی تقدیس اور پاکدامنی کو بیان کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے،

مثال کے طور پر ، متعدد روایات میں بخاری نے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ رسول اللہ کے گھر میں لڑکیاں آواز سے کچھ پڑھتی رہتی تھی ایک دن ابوبکر رسول کے گھر داخل ہوا تو وہ سخت ناراض ہوئے اور لڑکیوں کو اس کام سے روکنا چاھا لیکن رسول نے ابوبکر کو منع کیا ، پھر عائشہ کہتی ہے کہ ابوبکر کہیں اور متوجہ ہوا تو میں نے‌‌ان‌دو لڑکیوں کی طرف اشارہ کیا کہ وہ گھر سے نکل جائیں،

«عن عایشةَ قالتْ: دخل علی رسولِ الله(ص) و عندی جاریتان تغنّیان بِغِناءِ بُغاث، فاضطَجعَ علی الفِراش و حَوَّل وجهَه، فدخلَ ابوبکر فانتهَرَنی و قال: مِزمارَةُ الشیطان عندَ رسول الله؟ فاقبَلَ علیه رسولُ الله (ص) فقال:‌ دعْهُما. فلمّا غَفل غَمَزْتُهما فَخرَجَتا».

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں تشریف لائے تو دو لڑکیاں میرے پاس جنگ بعاث کے گیت گا رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بستر پر لیٹ گئے اور چہرہ مبارک دوسری طرف کر لیا اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ آ گئے اور آپ نے مجھے ڈانٹا کہ یہ شیطانی گانا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں! لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم‌‌ان‌کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ انہیں گانے دو، پھر جب ابوبکر دوسری طرف متوجہ ہو گئے تو میں نے‌‌ان‌لڑکیوں کو اشارہ کیا اور وہ چلی گئیں۔

ایک اور مضحکہ خیز موضوع ہے جو بخاری سمیت اہل سنت کے بہت ساری کتابوں میں بنام موفقات عمر زیر تحریر لایا گیا ہے وہ یہ کہ دوسرے خلیفہ کے لئے فضیلت کی ساختگی کے لئے من گھڑت واقعات کو اس کتاب میں مرقوم کیا گیا ہے، وہ یہ کہ اگر چہ وحی کا انحصار رسول کریم تھے لیکن اللہ نے حضرت عمر کے رائے کے مطابق قرآن کے آیات نازل کی ہیں

بطور مثال ،

«عن عبدالله بن عمر قال:‌ لما تَوفّی عبدُالله بنِ اُبَیّ، جاءَ ابنُه إلی رسول الله(ص) فقال: یا رسولَ الله، إعطنی قمیصَک اُکَفّنَه فیه و صلِّ علیه و استَغفِر له، ... فجاءَ لِیُصلّیَ علیه، فَجَذَبَه عمرُ فقال:‌ أ لیسَ قد نَهاکَ الله أن تُصلّی علی المنافقین؟ ... فنزلت «وَ لا تُصَلّ علی أحَدٍ مِنهم ماتَ أبداً» فَتَرکَ الصلاةَ علیهم».

جب عبداللہ بن ابی کی وفات ہوئی تو اس کے لڑکے ( عبداللہ ) جو مخلص اور اکابر صحابہ میں تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! اپنی قمیص مجھے عطا فرمایئے تاکہ میں اپنے باپ کو اس کا کفن دوں اور آپ‌‌ان‌کی نماز جنازہ پڑھا دیں اور‌‌ان‌کے لیے دعائے مغفرت کریں ۔۔۔۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تاکہ اس کی نماز جنازہ پڑھائیں لیکن عمر نے آپ کو پکڑ لیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو منافقین پر نماز جنازہ پڑھنے سے منع نہیں فرمایا ہے؟ ۔۔۔۔پھر یہ آیت نازل ہوئی «ولا تصل على أحد منهم مات أبدا‏» کہ ”اور‌‌ان‌میں سے کسی پر بھی جو مر گیا ہو ہرگز نماز نہ پڑھئیے۔“ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے‌‌ان‌کی نماز جنازہ پڑھنی چھوڑ دی۔

اس نامعقول روایت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت عمر کو رسول اللہ سے زیادہ اطلاع اور معلومات تھے ، اللہ نے عمر کی باتوں کی تایید کی ہے اور اپنے رسول کے عمل کو غلط اور مورد نہی قرار دیا ہے،

و... .

باقی پیغمبروں کی توھین:

مثال کے طور پر ، وہ روایت کہ جس میں اولو العزم انبیا کو اللہ کے غضب کے مصداق ٹھہرائے ہیں،

جس میں قیامت کے بارے میں بیان ہے کہ

بعض لوگ بعض سے کہیں گے کہ آدم علیہ السلام کے پاس چلنا چاہئے۔ چنانچہ سب لوگ آدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے آپ انسانوں کے پردادا ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور اپنی طرف سے خصوصیت کے ساتھ آپ میں روح پھونکی۔ فرشتوں کو حکم دیا اور انہوں نے آپ کو سجدہ کیا اس لیے آپ رب کے حضور میں ہماری شفاعت کر دیں، آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہم کس حال کو پہنچ چکے ہیں۔

آدم علیہ السلام کہیں گے کہ

«إنّ ربّی قد غَضِب الیومَ غضْباً لم یغضَبْ قبلَه مثلَه و لنْ یغْضَب بعدَه مثلَه و إنّه نَهانی عن الشجرة فعصیْتُه، نفْسی نفسی نفسی، إذهبوا الی غیری، إذهبوا الی نوحٍ»

میرا رب آج انتہائی غضبناک ہے۔ اس سے پہلے اتنا غضبناک وہ کبھی نہیں ہوا تھا اور نہ آج کے بعد کبھی اتنا غضب ناک ہو گا اور رب العزت نے مجھے بھی درخت سے روکا تھا لیکن میں نے اس کی نافرمانی کی، پس نفسی، نفسی، نفسی مجھ کو اپنی فکر ہے تم کسی اور کے پاس جاؤ۔ ہاں نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ۔

پھر سب لوگ حضرت نوح کے پاس جائینگے تو حضرت نوح بھی اسی جملے کا تکرار کرکے حضرت ابراھیم کے پاس جانے کو کہیں گے پھر وہ حضرت موسی پھر حضرت عیسی، الغرض سب یہی جملہ کہیں گے کہ

«إنّ ربّی قد غَضِبَ الیومَ غضباً لم یغضَب قبلَه مثلَه...»

آج میرا رب بہت غضبناک ہے؟ اتنا غضبناک نہ وہ پہلے ہوا تھا اور نہ آج کے بعد ہو گا۔

اسی روایت میں ہے کہ حضرت ابراھیم علیہ السلام نے تین جھوٹ بولے تھے العیاذ باللہ

اسی طرح حضرت سلیمان علیہ السلام کی بھی توھین کی ہے کہ جو اگے احادیث نامعقول میں آپ قارئین مطالعہ فرمائیں گے،

حضرت موسی علیہ السلام کی توھین:

زینت الماری صحیح بخاری نے تو حضرت موسی علیہ السلام کی وہ توہین کی ہے کہ اگر آج اس دور میں وہ یہ توہین کرتے تو ضرور اس پر توہین انبیائ کا کیس بنتا اور پھانسی ہوتا مگر افسوس، اہل سنت نے اس جیسی من گھڑت روایت کے لکھنے والے کو اپنا امام اور اس کی کتاب کو قرآن کے ہم پلہ قرار دیا ہے ،

روایت کچھ یوں ہے کہ

حدثنا إسحق بن نصر قال حدثنا عبد الرزاق عن معمر عن همام بن منبه عن أبی هریرة عن النبی صلى الله علیه و سلم قال

: ( کانت بنو إسرائیل یغتسلون عراة ینظر بعضهم إلى بعض وکان موسى یغتسل وحده فقالوا والله ما یمنع موسى أن یغتسل معنا إلا أنه آدر فذهب مرة یغتسل فوضع ثوبه على حجر ففر الحجر بثوبه فخرج موسى فی إثره یقول ثوبی یا حجر حتى نظرت بنو إسرائیل إلى موسى فقالوا والله ما بموسى من بأس وأخذ ثوبه فطفق بالحجر ضربا ) . فقال أبو هریرة والله إنه لندب بالحجر ستة أو سبعة ضربا بالحجر

بنی اسرائیل ننگے ہوکر اس طرح نہاتے تھے کہ ایک شخص دوسرے کو دیکھتا لیکن موسی علیہ السلام تنہا پردہ سے غسل فرماتے اس پر انہوں نے کہا کہ بخدا موسی کو ہمارے ساتھ غسل کرنے میں صرف یہ چیز مانع ہے کہ آپ کے خصیے بڑھے ہوئے ہیں۔ ایک مرتبہ موسی علیہ السلام غسل کرنے لگے اور آپ نے کپڑوں کو ایک پتھر پر رکھ دیا اتنے میں پتھر کپڑوں کو لے کر بھاگا ۔ اور موسی علیہ السلام بھی اس کے پیچھے بڑی تیزی سے دوڑے ، آپ کہتے جاتے تھے ۔ اے پتھر میرا کپڑا دے اےپتھر میرا کپڑا دے۔ اس عرصہ میں بنی اسرائیل نے موسی علیہ السلام کو ننگا دیکھ لیا اور کہنے لگے کہ بخدا موسی کو کوئی بیماری نہیں اور موسی علیہ السلام نے کپڑا لیا اور پتھر کو مارنے لگے ، ابوہریرہ نے کہا کہ بخدا اس پتھر پر چھ یا سات مار کے نشان باقی ہیں۔

کیا اس روایت میں حضرت موسی علیہ السلام کی صراحتا توھین نہیں ہے ، اللہ کے رسولوں کا جس کتاب میں مذاق اڑایا گیا ہو وہ کتاب کیسے صحیح ترین کتاب ہوسکتی ہے،

اللہ کے جسم کے قائل ہونا:

قرآنی تعلیمات اور عقلی قوائد کے مطابق اللہ جسم نہیں رکھتا اور کسی خاص مکان میں محدود نہیں اور‌‌ان‌ظاہری آنکھوں سے دیکھا نہیں جاتا ،

مگر واہ بخاری واہ ،،، اللہ کو بھی نہیں چھوڑا

«عن جُریر قال: کُنّا عندَ النبیّ(ص)، اذ نظرَ الی القمرِ لیلةَ البدر، فقال: أما انّکم سَتَرونََ ربَّکم کما تَرونَ هذا...».

ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند کی طرف نظر اٹھائی جو چودھویں رات کا تھا۔ پھر فرمایا کہ تم لوگ بے ٹوک اپنے رب کو اسی طرح دیکھو گے جیسے اس چاند کو دیکھ رہے ہو۔۔۔۔۔

۱۱۴۵- حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِکٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِی سَلَمَةَ، وَأَبِی عَبْدِ اللَّهِ الأَغَرِّ، عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: یَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَکَ وَتَعَالَى کُلَّ لَیْلَةٍ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْیَا حِینَ یَبْقَى ثُلُثُ اللَّیْلِ الآخِرُ یَقُولُ: مَنْ یَدْعُونِی، فَأَسْتَجِیبَ لَهُ مَنْ یَسْأَلُنِی فَأُعْطِیَهُ، مَنْ یَسْتَغْفِرُنِی فَأَغْفِرَ لَهُ .

ابو هریره روایت کرتا ہے که پیامبر اسلام نے فرمایا کہ ہمارا پیروردگار ہرشب آخری تہائی حصہ میں آسمان دنیا پر آتا ہے،

اسی طرح اہل سنت کے اس صحیح ترین کتاب نے اللہ کو جہنم تک پہنچایا ہے یہ روایت ملاحظہ کریں،

حدثنا آدم حدثنا شیبان حدثنا قتادة عن أنس بن مالک

: قال النبی صلى الله علیه و سلم ( لا تزال جهنم تقول هل من مزید حتى یضع رب العزة فیها قدمه فتقول قط قط وعزتک ویزوى بعضها إلى بعض )

نبی اکرم نے فرمایا کہ جہنم یہی کہتی رہے گی کہ کیا کچھ اور ہے کیا کچھ اور ہے، آخر اللہ تعالی اپنا قدم اس میں رکھ دے گا۔

نامعقول روایات کا ذکر:

«عن أبی‏هریرة عن النبی(ص) قال: خَلََق اللهُ آدمَ و طولُه ستّونَ ذراعاً...».

”اللہ پاک نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تو‌‌ان‌کو ساٹھ ہاتھ لمبا بنایا۔

اسی طرح بخاری نے حضرت سلیمان کے بارے میں وہ بات لکھی ہے کہ جس کو نقل کرنا بھی شرمندگی قلم کا باعث ہے مگر ہم نقل کرنے پر مجبور ہیں تاکہ اپنا مدعی ثابت کریں

وہ روایت کرتا ہے کہ

«عن ابی هریرةَ قال: قال سلیمانُ بنُ داوود علیهما‏السلام: لَأطُوفَنَّ اللیلةَ بِمأةِ إمرأة، تَلِدُ کلُّ إمرأةٍ غلاماً یُقاتل فی سبیل الله. فقال له الملَکُ: قُل إن شاءَ الله، فَلَم یَقُل و نَسِی، فأطافَ بِهنّ، و لم تَلِد مِنهنّ إلا إمرأةٌ نِصفَ انسانٍ».

سلیمان بن داؤد علیہاالسلام نے فرمایا کہ آج رات میں اپنی سو بیویوں کے پاس ہو آؤں گا ( اور اس قربت کے نتیجہ میں ) ہر عورت ایک لڑکا جنے گی تو سو لڑکے ایسے پیدا ہوں گے جو اللہ کے راستے میں جہاد کریں گے۔ فرشتہ نے‌‌ان‌سے کہا کہ‌‌ان‌شاءاللہ کہہ لیجئے لیکن انہوں نے نہیں کہا اور بھول گئے۔ چنانچہ آپ تمام بیویوں کے پاس گئے لیکن ایک کے سوا کسی کے بھی بچہ پیدا نہ ہوا اور اس ایک کے یہاں بھی آدھا بچہ پیدا ہوا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر‌‌ان‌شاءاللہ کہہ لیتے تو‌‌ان‌کی مراد بر آتی اور‌‌ان‌کی خواہش پوری ہونے کی امید زیادہ ہوتی۔

بخاری نے اپنے آپ سے روایت نقل کی ہے۔

یہ تو انتہائی ہی مضحکہ خیز ہے کہ خود روایت نقل کرنے والا اپنے آپ سے روایت نقل کرے ،جیسا کہ جناب بخاری نے یہ کام بھی انجام دیا ہے،

"حدثنا محمد بن سلام: حدثنا محمد بن الحسن الواسطی، عن عوف، عن الحسن قال: لا بأس بالقرائه علی العالم. و اخبرنا محمد بن یوسف الفربری و حدثنا محمد بن اسماعیل البخاریقال: حدثنا عبیدالله بن موسی، عن سفیان، قال: إذا قرئ علی المحدث فلا بأس أن تقول: حدثنی. قال: و سمعت ابا عاصم یقول عن مالک و سفیان: القرائه علی العالم و قرائته سواء."

جناب بخاری کہتے ہیں کہ ہمیں یہ حدیث جناب بخاری نے نقل کی ہے،

اس روایت میں بخاری نے اپنے آپ سے روایت کی ہے ،

یہ روایت دلیل ہے کہ یا تو جناب بخاری علم حدیث سے نااشنا تھے یا بعد والے لوگوں کے ہاتھوں یہ کتاب تحریف شدہ ہے ،

بخاری کی اہل بیت سے دشمنی:

بخاری نے ابوہریرہ سے کہ جو دو یا تین سال رسول کا صحابی رہا ہے، ۴۴۶ احادیث نقل کی ہیں ، عبد اللہ بن عمر سے ۲۷۰ روایات ، عائشہ سے ۲۴۲ روایات، ابوموسی اشعری سے ۵۷ روایات اور انس بن مالک سے ۲۰۰ سے زیادہ روایات نقل کی ہیں جبکہ

مولا علی علیہ السلام کہ جو شہر علم کا دروازہ ہے سے فقط ۱۹ روایات اور بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے صرف ایک روایت نقل کی ہے، جبکہ امام حسن علیہ السلام ، زید بن علی ، امام صادق علیہ السلام ، امام موسی کاظم علیہ السلام ، امام علی رضا علیہ السلام ، امام محمد تقی جواد علیہ السلام ، امام علی نقی ھادی علیہ السلام اور امام حسن عسکری علیہ السلام [ موخر الذکر تین امام بخاری کے ہم عصر بھی تھے] سے کوئی ایک حدیث بھی نقل نہیں کی ہے۔

اسی لئے بعض غیر متعصب علما اہل سنت کا نظریہ ہے کہ بخاری ناصبیت کی لعنت سے بری نہیں تھا،

بخاری میں اسرائیلیات:

قال رسول الله (ص) :

« لا تخیرونی علی موسی؛ فانّ الناس یصعقون یوم القیامه فاکون اول من یفیق.... فلاادری أکان موسی فیمن صعق فأفاق قبلی او کان ممن استثنی الله.»

رسول اللہ نے فرمایاکہ

مجھے موسی علیہ السلام پر ترجیح نہ دو ۔ لوگ قیامت کے دن بے ہوش کردئیے جائیں گے ، بے ہوشی سے ہوش میں آنے والا سب سے پہلا شخص میں ہوں گا، اب مجھے پتہ نہیں کہ موسی بھی بے ہوش ہونے والوں میں سے ہونگے یا اللہ نے‌‌ان‌کو بے ہوشی سے مستثنی لوگوں میں قرار دیا ہے،

اس روایت کے مطابق حضرت موسی ہمارے نبی سے افضل ہے۔

اسی طرح بارہ مقامت پر بخاری نے لکھا ہے کہ کوئی رسول اللہ کو حضرت یونس علیہ السلام سے بہتر نہ مانے،

« لا ینبغی لعبد أن یقول: انا خیرٌ من یونس بن متی»

ملاحظہ فرمائیں۔

کسی شخص کو یوں نہ کہنا چاہئے کہ میں یونس بن متی سے بہتر ہوں۔ حدیث نمبر ۳۳۹۵

یہ روایت مندرجہ ذیل عبارات کے ساتھ کئی مقامات پر ذکر ہے،

  • کوئی شخص میرے متعلق یہ نہ کہے کہ میں یونس علیہ السلام سے بہتر ہوں۔ حدیث نمبر ۳۴۱۲
  • کسی شخص کے لیے مناسب نہیں کہ مجھے یونس بن متی سے بہتر قرار دے۔ حدیث نمبر ۳۴۱۳
  • اور میں تو یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ کوئی شخص یونس بن متی سے بہتر ہے ۔ حدیث نمبر ۳۴۱۵
  • کسی کے لئے یہ کہنا لائق نہیں کہ میں یونس بن متی سے بہتر ہوں ۔ حدیث نمبر ۳۴۱۶
  • کسی کے لئے مناسب نہیں کہ مجھے یونس بن متی سے بہتر قرار دے ۔ حدیث نمبر ۴۶۰۳

اور حدیث نمبر ۴۶۰۴، ۴۶۳۰، ۴۶۳۱،۴۸۰۴، ۴۸۰۵، ۷۵۳۹ میں بھی بالکل یہ مطلب بیان ہے،

پس اہل سنت کے صحیح ترین کتاب کے مطابق رسول اللہ کو حضرت یونس علیہ السلام سے افضل اور بہتر ماننا جائز نہیں ،

حالانکہ مسلمانوں کے تمام فرقے اس بات پر متفق ہے کہ نبی اکرم ﷺ تمام انبیائ سے افضل ہیں اور‌‌ان‌کے سردار ہیں۔

وما علینا الا البلاغ

ایک سنی عالم سے ایک عورت کا مناظرہ

بازدید : 493
پنجشنبه 21 اسفند 1398 زمان : 6:28
آرشیو نظرات
  • 1
  • 2
  • 3
  • 4
  • 5

سید ابوعماد حیدری

ایک سنی عالم سے ایک عورت کا مناظرہ

👈ایک سنی عالم ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ مولا علی علیہ السلام سے حضرت *ابوبکر ، عمر اور عثمان* افضل ہیں ،


ایک دن ایک عورت نے اٹھ کر کہا کہ


🔴اے مفتی صاحب کیا حضرت ابوبکر ، عمر اور عثمان اپنی نمازوں میں محمد وآل محمد پر درود بھیجتے تھے ؟

✅مفتی صاحب نے کہا کہ ہاں ، تینوں کے تینوں خلفائ اپنی نمازوں میں محمد و آل محمد پر درود بھیجتے تھے۔


🔴عورت نے کہا کہ کیا نماز میں آل محمد پر درود بھیجنا واجب ہے؟

✅مفتی نے کہا کہ ہاں بالکل واجب ہے،


🔴عورت نے کہا کہ کیا آل محمد پر درود بھیجے بغیر نماز قبول ہوجاتی ہے ؟

✅مفتی صاحب نے کہا کہ نہیں ، بالکل بھی قبول نہیں ہوتی، آل محمد پر درود پڑھنا ضروری ہے،


🔴عورت نے کہا کہ کیا مولا علی فاطمہ حسن اور حسین [ علیہم السلام] اپنی نمازوں میں حضرت ابوبکر ، عمر اور عثمان پر درود بھیجتے تھے؟

✅مفتی صاحب نے کہا کہ نہیں ۔


🔴عورت نے کہا کہ کیا نماز میں حضرت ابوبکر ، عمر اور عثمان پر درود بھیجنے سے نماز باطل ہوجاتی ہے؟

✅مفتی صاحب نے کہا کہ ہاں باطل ہوجاتی ہے۔


🛑 عورت نے کہا کہ مفتی صاحب آپ کا بہت شکریہ ، آپ نے مسئلہ ہی حل کردیا ،
*جن کا نماز میں ذکر کرنے سے نماز باطل ہوجاتی ہے وہ کیسے افضل ہیں‌‌ان‌سے کہ جن کا ذکر کئے بغیر نماز قبول ہی نہیں ہوتی؟*

🌹اللهم صل على محمد وال محمد🌹

سید ابوعماد حیدری

حسن بن فضال بن حسن کا ابوحنیفہ کے ساتھ مناظرہ

بازدید : 578
پنجشنبه 21 اسفند 1398 زمان : 4:56
آرشیو نظرات
  • 1
  • 2
  • 3
  • 4
  • 5

سید ابوعماد حیدری

حسن بن فضال بن حسن کا ابوحنیفہ کے ساتھ مناظرہ

حسن بن فضال نے کہا کہ اے ابوحنیفہ میرا ایک بھائی ہے کہ جو کہتا ہے کہ رسول اللہ ـ صلّى الله علیه وآله ـ کے بعد سب سے افضل علی علیہ السلام ہیں ، اور میں کہتا ہوں کہ لوگوں میں سے سب سے بہتر ابوبکر پھر عمر ہے ، اللہ آپ پر رحم کرے آپ کیا کہتے ہیں ، کچھ دیر کے بعد ابوحنیفہ نے سر اٹھا کر کہا کہ

حضرت ابوبکر اور عمر کے مقام کے لئے یہی کافی ہے کہ‌‌ان‌کی قبریں رسول اللہ کے ساتھ ہیں کہ جو‌‌ان‌کرامت اور فخر کے لئے کافی ہیں ، کیا اس سے کوئی اور روشن دلیل ہے،

فضال نے کہا کہ میں نے اپنے بھائی کو بالکل ایسا ہی کہا ہے مگر اس نے کہا کہ اگر مدفن کی جگہ رسول اللہ کی ملکیت ہے تو حضرت ابوبکر اور عمر نے ظلم کیا ہے کیونکہ وہ ایسی جگہ میں دفن ہوئے ہیں جو‌‌ان‌کی ملکیت ہی نہیں ہیں ،[ یعنی غاصب جگہ پر دونوں مدفون ہیں]، اور اگر مدفن کی جگہ‌‌ان‌دونوں کی ملکیت تھی اور‌‌ان‌دونوں نے رسول اللہ کو ھبہ کی تھی تو پھر ھبہ کی ہوئی چیز کو واپس لینا اور عھد و پیمان کو فراموش کرنا اچھی بات نہیں ،

پھر ابوحنیفہ کچھ دیر سوچنے کے بعد کہنے لگا کہ وہ جگہ نہ رسول کی تھی اور نہ ہی ابوبکر اور عمر کی، بلکہ وہ عائشہ اور حفصہ کی ملکیت تھی، اور ابوبکر اور عمر وہاں دفن ہونے کا حق رکھتے تھے کیونکہ وہ‌‌ان‌کی بیٹیوں کی ملکیت تھی،

فضال نے کہا کہ میں نے اپنے بھائی کو یہ بھی کہا ہے مگر اس نے کہا کہ نبی اکرم جب وصال کرگئے تو‌‌ان‌کی نو بیویاں تھیں اور ہر بیوی کو آٹھویں حصے میں سے نواں حصہ ملا ہے ، تو اس صورت میں تو ہر بیوی کو ایک ایک بالشت کی جگہ نصیب ہوتی ہے، پھر ابوبکر اور عمر کیسے وہاں دفن ہونے کا حق رکھتے ہیں جبکہ‌‌ان‌کے بیٹیوں کی زمین ایک ایک بالشت سے زیادہ نہیں تھی؟؟، اور یہ بھی کہ کیسے عائشہ اور حفصہ رسول اللہ کی وارث بن سکتی ہیں اور فاطمہ میراث میں حصہ نہیں لے سکتی؟؟

ابوحنیفہ نے لوگوں کو کہا کہ اے لوگوں اس شخص کو مجھ سے دور کرو یہ خبیث رافضی ہے، .

____________.
الفصول المختارة ج1 ص47 ،

کنز الفوائد للکراجکی ج1 ص294 ،

الاحتجاج ج2 ص382 ،

بحار الانوار ج10 ص231 ح2 وج47 ص400 ح

سید ابوعماد حیدری

صحیح بخاری میں ناصبی راوی

بازدید : 518
پنجشنبه 21 اسفند 1398 زمان : 4:56
آرشیو نظرات
  • 1
  • 2
  • 3
  • 4
  • 5

سید ابوعماد حیدری

صحیح بخاری میں ناصبی راوی

مولا علی علیہ السلام سے بغض و کینہ رکھنے والے وہ راوی جن سے جناب بخاری نے روایات لی ہیں۔

سید ابوعماد حیدری

واٹس اپ نمبرز

989365958155 +

+923149736712

بسم اللہ الرحمن الرحیم

درود و سلام ہو محمد مصطفی اور‌‌ان‌کی پاک آل پر

محترم قارئین کرام

ہم اہل سنت کے معتبر ترین کتاب صحیح بخاری کے‌‌ان‌راویوں کے نام اس مختصر سی تحقیق میں پیش کررہے ہیں کہ جن کی ناصبیت اور خارجیت پر اہل سنت کے بڑے بڑے علمائ نے اقرار کیا ہے،

حریز بن عثمان

جناب بخاری نے اس راوی سے کتاب المناقب باب صفۃ النبی میں روایت لی ہے،

3353 - حدثنا عصام بن خالد حدثنا حریز بن عثمان ۔۔۔۔۔۔۔۔

حریز بن عثمان کے بارے میں ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ

حریز صحیح الحدیث إلا أنه یحمل على علی ....

حریز مولا علی سے بغض کرتا تھا

وقال عمرو بن علی کان ینتقص علیا وینال منه

عمرو بن علی نے کہا کہ حریز مولا علی کی عیب جوئی کرتا تھا اور‌‌ان‌سے نفرت کرتا تھا

ثبت شدید التحامل على علی

حریز شدید قسم کی دشمنی رکھتا تھا مولا علی

کان حریز یقول لا أحب علیا قتل آبائی

حریز کہا کرتا تھا کہ میں علی سے محبت نہیں کرتا کیونکہ اس نے میرے ابا و اجداد کو قتل کیا ہے۔

وقال غنجار قیل لیحیى بن صالح لم لم تکتب عن حریز فقال کیف اکتب عن رجل صلیت معه الفجر سبع سنین فکان لا یخرج من المسجد حتى یلعن علیا سبعین مرة

غنجار کہتا ہے کہ یحیی بن صالح سے پوچھا گیا کہ تم حریز سے روایت کیوں نقل نہیں کرتے تو یحیی بن صالح نے کہا کہ میں کیسے اس شخص سے روایات نقل کروں کہ جس کے ساتھ میں سات سال فجر کی نماز پڑھی ہے وہ اس وقت تک مسجد سے نہیں نکلتا تھا جب تک علی پر ستر دفعہ لعنت نہ کرتا،

وقال بن حبان کان یلعن علیا بالغداة سبعین مرة وبالعشی سبعین مرة فقیل له فی ذلک فقال هو القاطع رؤوس آبائی وأجدادی وکان داعیة إلى مذهبه

ابن حبان کہتا ہے کہ حریز مولا علی پر صبح بھی ستر دفعہ لعنت کرتا تھا اور رات کو بھی ستر دفعہ لعنت کرتا تھا، اس سے پوچھا گیا کہ تم یہ لعنت کیوں کرتے ہو تو اس نے جواب دیا کہ علی میرے اباواجداد کو قتل کرنے والا ہے اور لوگوں کو اپنے مذھب کی طرف بلانے والا ہے،

اگر کوئی کہے کہ ناصبی ہو تو اس کی ثقہ ہونے سے منافات نہیں رکھتا ،

جواب یہ ہے کہ عجیب بات ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام جیسے شخص سے کوئی روایت نہ لی جائے اور جاکر علی علیہ السلام کو گالیاں دینے والوں سے روایات لی جائیں۔

عمران بن حطان:

عمران بن حطان سے بخاری کی روایات

5497 - حدثنی محمد بن بشار حدثنا عثمان بن عمر حدثنا علی بن المبارک عن یحیى بن أبی کثیر عن عمران بن حطان قال سألت عائشة.......

5608 - حدثنا معاذ بن فضالة حدثنا هشام عن یحیى عن عمران بن حطان أن عائشة رضی الله عنها حدثته .........

عمران بن حطان تو وہ راوی ہے کہ جس نے مولا علی علیہ السلام کے قاتل ابن ملجم ملعون کی شان میں ایک قصیدہ کہا ہے کہ اہل سنت کے مشہور و معروف عالم دین علامہ شمس الدین ذھبی لکھتے ہیں کہ

وفی ابن ملجم یقول عمران بن حطان الخارجی.

یا ضربة من تقى ما أراد بها .......... إلا لیبلغ من ذی العرش رضوانا

کیا تقوی کی وہ ضربت تھی کہ جس کی وجہ سے صاحب عرش [خدا] اس سے [ ابن ملجم] سے راضی ہوا

إنی لأذکره حیناً فأحسبه .......... أوفى البریة عند الله میزانا

جب میں ابن ملجم کو یاد کرتا ہوں تو اس کو اللہ کی مخلوفات میں سب سے وفادار ترین شخص تصور کرتا ہوں،

اسحاق بن سوید

1813 - حدثنا مسدد حدثنا معتمر قال سمعت إسحق عن عبد الرحمن بن أبی بکرة عن أبیه عن النبی صلى الله علیه و سلم.....

وکان یحمل على علی ......وقال أبو العرب الصقلی فی الضعفاء کان یحمل على علی تحاملا شدیدا وقال لا أحب علیا

اسحاق بن سوید مولا علی سے دشمنی کرتا تھا ۔۔۔۔ ابوالعرب الصیقلی نے اس کو ضعیف راوی کہا ہے، یہ مولا علی سے سخت ترین دشمنی رکھتا تھا اور کہتا تھا کہ میں علی سے محبت نہیں کرتا،

ثور بن یزید

2766 - حدثنی إسحاق بن یزید الدمشقی حدثنا یحیى بن حمزة قال حدثنی ثور بن یزید عن خالد بن معدان أن عمیر بن الأسود العنسی ......

5143 - حدثنا أبو عاصم عن ثور بن یزید عن خالد بن معدان عن أبی أمامة .......

علامہ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ

وکان جده قتل یوم صفین مع معاویة فکان ثور إذا ذکر علیا قال لا أحب رجلا قتل جدی .

ثور بن یزید کا دادا جنگ صفین میں معاویہ کے لشکر میں قتل ہوا تھا [ مولا علی کے ہاتھوں] ۔ ثور بن یزید جب بھی علی کا تذکرہ کرتا تو کہتا کہ میں اس شخص سے محبت نہیں کرتا جس نے میرے دادا کو قتل کیا ہے،

حصین بن نمیر واسطی

3229 - حدثنا مسدد حدثنا حصین بن نمیر عن حصین بن عبد الرحمن عن سعید بن جبیر عن ابن عباس رضی الله عنهما قال

5420 - حدثنا مسدد حدثنا حصین بن نمیر عن حصین بن عبد الرحمن عن سعید بن جبیر عن ابن عباس رضی الله عنهما قال

علامہ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ

قال أتیته فإذا هو یحمل على علی فلم أعد إلیه

راوی کہتا ہے کہ میں حصین بن نمیر کے پاس گیا دیکھا کہ وہ مولا علی کی عیب جوئی کررہا تھا پھر میں نے اس کے پاس جانا چھوڑ دیا

زیاد بن علاقہ

58 - حدثنا أبو النعمان قال حدثنا أبو عوانة عن زیاد بن علاقة قال سمعت جریر بن عبد الله یقول یوم مات المغیرة بن شعبة قام .....

996 - حدثنا عبد الله بنن محمد قال حدثنا‌هاشم بن القاسم قال حدثنا شیبان أبو معاویة عن زیاد بن علاقة عن المغیرة بن شعبة قال .....

2565 - حدثنا أبو نعیم حدثنا سفیان عن زیاد بن علاقة قال سمعت جریرا رضی الله عنه یقول .......

علامہ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ

وقال الأزدی سیء المذهب کان منحرفا عن أهل بیت النبی صلى الله علیه وآله وسلم

ازدی نے کہا کہ اس کا مذھب فاسد تھا، یہ نبی کے اہل بیت سے منحرف تھا،

زیاد بن جبیر

1627 - حدثنا عبد الله بن مسلمة حدثنا یزید بن زریع عن یونس عن زیاد بن جبیر قال ......

1892 - حدثنا محمد بن المثنى حدثنا معاذ أخبرنا ابن عون عن زیاد بن جبیر قال ......

6328 - حدثنا عبد الله بن مسلمة حدثنا یزید بن زریع عن یونس عن زیاد بن جبیر قال .......

علامہ ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں کہ

کان زیاد بن جبیر یقع فی الحسن والحسین

زیاد بن جبیر امام حسن اور امام حسین علیہ السلام کی عیب جوئی اور بدگوئی کرتا تھا،

سائب بن فروخ ابوالعباس الشاعر

1876 - حدثنا عمرو بن علی أخبرنا أبو عاصم عن ابن جریج سمعت عطاء أن أبا العباس الشاعر أخبره

اہل سنت عالم یاقوت حموی اپنی کتاب معجم الادبائ میں لکھتے ہیں کہ

وکان منحرفاً عن آل أبی طالبٍ مائلاً إلى بنی أمیة مادحاً لهم،

ابوالعباس الشاعر آل ابی طالب سے منحرف تھا اور بنی امیہ کی طرف مائل تھا اور بنی امیہ کی تعریفیں کرنے والا تھا،

قیس بن ابی حازم

57 - حدثنا مسدد قال حدثنا یحیى عن إسماعیل قال حدثنی قیس بن أبی حازم عن جریر بن عبد الله قال .....

علامہ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ

کان یحمل على علی

قیس بن ابی حازم مولا علی کی دشمنی کرتا تھا

ابوھریرہ

یہ وہ راوی ہے کہ جس سے جناب بخاری نے سینکڑوں روایات لی ہیں،

اہل سنت عالم ابن ابی الحدید المعتزلی لکھتے ہیں کہ

أن معاویة وضع قوما من الصحابة وقوما من التابعین على روایة أخبار قبیحة فی علی ع تقتضی الطعن فیه والبراءة منه ..... منهم أبو هریرة

معاویہ نے صحابہ اور تابعین میں کچھ لوگوں کو مقرر کیا تاکہ وہ لوگ مولا علی کے بارے میں قبیح اخبار کو وضع کرے کہ جس کا تقاضا مولا علی پر طعن ہو اور مولا علی سے برائت ہو،‌‌ان‌میں سے ایک ابوھریرہ تھا۔

ہم دلیل کے طور پر اہل سنت کی کتابوں سے ایک روایت ذکر کرتے ہیں اگر چہ اس باب میں روایات زیادہ ہیں کہ جو دلالت کرتی ہیں کہ ابوھریرہ مولا علی سے بغض کرتا تھا،

مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت ہے کہ

32092 - حدثنا شریک عن أبی یزید الأودی عن أبیه قال دخل أبو هریرة المسجد فاجتمعنا إلیه فقام إلیه شاب فقال أنشدک بالله أسمعت رسول الله صلى الله علیه و سلم یقول من کنت مولاه فعلی مولاه اللهم وال من والاه وعاد من عاداه فقال نعم فقال الشاب أنا منک برئ أشهد أنک قد عادیت من والاه ووالیت من عاداه.

جب ابوھریرہ مسجد میں جاتا تو لوگ جمع ہوتے تھے ایک جوان نے ابوھریرہ سے پوچھا کہ تجھے اللہ کی قسم دلاتا ہوں کیا تم نے رسول اللہ سے سنا ہے کہ جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے اے اللہ تو‌‌ان‌سے محبت کر جو علی سے محبت کرے اور تو‌‌ان‌سے دشمنی کر جو علی سے دشمنی کرے، ابوھریرہ نے کہا کہ ہاں میں نے یہ رسول اللہ سے سنا ہے، جوان نے کہا کہ میں تجھ سے بیزاری کرتا ہوں تو گواھی دیتا ہوں کہ تم نے علی کے حبداروں سے دشمنی کی ہے اور علی کے دشمنوں سے دوستی اور محبت کی ہے،

مروان بن حکم

730 - حدثنا أبو عاصم عن ابن جریج عن ابن أبی ملیکة عن عروة بن الزبیر عن مروان بن الحکم قال ......

2466 - حدثنا یحیى بن بکیر حدثنا اللیث عن عقیل عن ابن شهاب عن عروة أن مروان بن الحکم والمسور بن مخرمة أخبراه

مروان بن حکم وہی شخص ہے جس کے باپ کو رسول اللہ نے مدینہ سے نکالا تھا اور اس پر مدینہ آنے کی پابندی لگائی تھی ، یہ حضرت عثمان کا داماد تھا، حضرت عثمان کے قتل میں اس کا مرکزی کردار تھا، جنگ جمل میں مولا علی علیہ السلام کے خلاف لڑنے والوں میں سے سرفہرست لوگوں میں ایک مروان تھا،

مروان کے بارے میں اہل سنت عالم دین شمس الدین ذھبی لکھتے ہیں کہ

وروی ابن عون عن عمیر بن اسحاق قال کَانَ مَرْوَانُ أَمِیْراً عَلَیْنَا، فَکَانَ یَسُبُّ رَجُلاً کُلَّ جُمُعَةٍ ، ثُمَّ عُزِلَ بِسَعِیْدِ بنِ العَاصِ، وَکَانَ سَعِیْدٌ لاَ یَسُبُّهُ، ثُمَّ أُعِیْدَ مَرْوَانُ، فَکَانَ یَسُبُّ. فَقِیْلَ لِلْحَسَنِ: أَلاَ تَسْمَعُ مَا یَقُوْلُ؟ فَجَعَلَ لاَ یَرُدُّ شَیْئاً...،

عمیر بن اسحاق کہتا ہے کہ جب مروان ہم پر گورنر تھا تو وہ ہر جمعہ ایک شخص کو گالیاں دیتا تھا ، جب سعید بن عاص امیر ہوا تو وہ اس شخص کو گالیاں نہیں دیتا تھا، پھر مروان دوبارہ امیر بنا تو وہ پھر سے گالیاں دینے لگا، امام حسن علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ مروان کیا کہتا ہے؟ [ یعنی مروان مولا علی کو سب و شتم کرتا ہے] امام حسن علیہ السلام نے کوئی توجہ نہیں کی،

آگے علامہ ذھبی لکھتے ہیں کہ

قَالَ عَطَاءُ بنُ السَّائِبِ: عَنْ أَبِی یَحْیَى، قَالَ: کُنْتُ بَیْنَ الحَسَنِ وَالحُسَیْنِ وَمَرْوَانَ، وَالحُسَیْنُ یُسَابُّ مَرْوَانَ، فَنَهَاهُ الحَسَنُ. فَقَالَ مَرْوَانُ: أَنْتُم أَهْلُ بَیتٍ مَلْعُوْنُوْنَ. فَقَالَ الحَسَنُ: وَیْلَکَ قُلْتَ هَذَا! وَاللهِ لَقَدْ لَعَنَ اللهُ أَبَاکَ عَلَى لِسَانِ نَبِیِّهِ وَأَنْتَ فِی صُلْبِهِ

ابو یحیی کہتا ہے کہ میں امام حسن ، امام حسین اور مروان کے پاس تھا کہ امام حسین ع مروان کو برا بلا کہہ رہے تھے ، امام حسن نے امام حسین کو روک لیا، تو مروان نے کہا کہ تم اہل بیت سب کے سب ملعون ہو، امام حسن علیہ السلام نے کہا کہ وائے ہو تجھ پر ، تم ایسی بات کرتے ہو ، اللہ کی قسم ۔ اللہ نے اپنے نبی کی زبان سے تیرے باپ پر لعنت کی ہے اور تم اس وقت اپنے باپ کے صلب میں تھے،

اسی طرح ابن تیمیہ کے شاگرد ابن کثیر لکھتے ہیں

کان یسب علیا کل جمعة على المنبر وقال له الحسن بن على لقد لعن الله أباک الحکم وأنت فى صلبه على لسان نبیه فقال لعن الله الحکم وما ولد

مروان منبر سے ہر جمعہ کو مولا علی ع پر لعن طعن کرتا تھا ، امام حسن علیہ السلام نے مروان کو کہا کہ اللہ نے اپنے نبی کی زبان سے تمھارے باپ اور تم پر لعنت کی ہے ، نبی نے فرمایا ہے کہ اللہ کی لعنت ہو حکم اور اس کے بیٹے پر [ مروان پر]

سید ابوعماد حیدری

متعلم حوزہ علمیہ قم المقدسہ

فیس بک پیج: http://www.facebook.com/quaidhaidari


صحیح البخاری ج 3 ص 1302 الناشر : دار ابن کثیر ، الیمامة - بیروت

الطبعة الثالثة ، 1407 - 1987 تحقیق : د. مصطفى دیب البغا أستاذ الحدیث وعلومه فی کلیة الشریعة - جامعة دمشق

الکتاب : تهذیب التهذیب ج 2 ص 208 باب من اسمه حریض ۔ المؤلف : أحمد بن علی بن حجر أبو الفضل العسقلانی الشافعی الناشر : دار الفکر – بیروت الطبعة الأولى ، 1404 – 1984

الکتاب: تاریخ الإسلام ووفیات المشاهیر والأعلام. ج ۳ ص ۶۵۴، // ج ۶ ص ۱۵۶ تألیف: شمس الدین محمد بن أحمد بن عثمان الذهبی. دار النشر: دار الکتاب العربی. مکان النشر: لبنان/ بیروت. سنة النشر: 1407هـ - 1987م. الطبعة: الأولى. تحقیق: د. عمر عبد السلام تدمری.

الکتاب : تهذیب التهذیب ج 1 ص 206 المؤلف : أحمد بن علی بن حجر أبو الفضل العسقلانی الشافعی الناشر : دار الفکر – بیروت الطبعة الأولى ، 1404 - 1984

الکتاب : تهذیب التهذیب ج 2 ص 30 المؤلف : أحمد بن علی بن حجر أبو الفضل العسقلانی الشافعی الناشر : دار الفکر – بیروت الطبعة الأولى ، 1404 - 1984

الکتاب : تهذیب التهذیب ج 8 ص 268 تألیف: أحمد بن علی بن محمد ابن حجر العسقلانی

ت: 852هـ الناشر: مطبعة دائرة المعارف النظامیة، الهند الطبعة الأولى، 1326هـ

الکتاب : تهذیب التهذیب ج 13 ص 80 تألیف: أحمد بن علی بن محمد ابن حجر العسقلانی الناشر: مطبعة دائرة المعارف النظامیة، الهند الطبعة الأولى، 1326هـ

الکتاب : تهذیب التهذیب ج 3 ص 308 المؤلف : أحمد بن علی بن حجر أبو الفضل العسقلانی الشافعی الناشر : دار الفکر – بیروت الطبعة الأولى ، 1404 - 1984

الکتاب : معجم الأدباء ص 475 المؤلف : یاقوت الحموی

الکتاب : تهذیب التهذیب ج 8 ص 347 المؤلف : أحمد بن علی بن حجر أبو الفضل العسقلانی الشافعی الناشر : دار الفکر – بیروت الطبعة الأولى ، 1404 - 1984

الکتاب : شرح نهج البلاغة ج 1 ص 1012 المؤلف : أبو حامد عز الدین بن هبة الله بن محمد بن محمد بن أبی الحدید المدائنی دار النشر : دار الکتب العلمیة - بیروت / لبنان - 1418هـ - 1998م الطبعة : الأولى تحقیق : محمد عبد الکریم النمری

الکتاب : المصنف فی الأحادیث والآثار ج 6 ص 369 المؤلف : أبو بکر عبد الله بن محمد بن أبی شیبة الکوفی الناشر : مکتبة الرشد – الریاض الطبعة الأولى ، 1409 تحقیق : کمال یوسف الحوت

سیر أعلام النبلاء ج 5 ص 476 المؤلف : شمس الدین أبو عبد الله محمد بن أحمد الذَهَبی المحقق : مجموعة محققین بإشراف شعیب الأرناؤوط الناشر : مؤسسة الرسالة

البدایة والنهایة ج8 ص 259 المؤلف : إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی أبو الفداء الناشر : مکتبة المعارف - بیروت

فاطمہ بضعۃ منی کی روایت پر اشکال

بازدید : 758
پنجشنبه 21 اسفند 1398 زمان : 4:56
آرشیو نظرات
  • 1
  • 2
  • 3
  • 4
  • 5

سید ابوعماد حیدری

فاطمہ بضعۃ منی کی روایت پر اشکال

فدک کا مسئلہ اہل سنت کی کتابوں سے روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ نہ فقط کسی تاریخی کتاب سے بلکہ اہل سنت کے ہاں سب سے معتبرترین کتاب صحیح بخاری میں ذکر ہے کہ بی بی فاطمہ زھرائ سلام اللہ علیہا خلیفہ اول کے پاس فدک کا مطالبہ کرنے گئیں مگر خلیفہ نے فدک دینے سے انکار کیا ، اس پر بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا ناراض ہوئی، روایت کے الفاظ ہے کہ

فوجدت فاطمہ علی ابی بکر ،

بی بی فاطمہ حضرت ابوبکر سے ناراض ہوئی،

اہل سنت کے ہاں یہ مسلم روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جس نے فاطمہ کو غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا،

نتیجہ : حضرت ابوبکر نے رسول اللہ کو ناراض کیا ،

اسی نتیجے سے جان چھڑانے کے لئے اہل سنت ایک ایسی روایت کی طرف جاتے ہیں جس کو جناب بخاری بڑے شد و مد سے نقل کی ہے، اور وہ امام علی علیہ السلام کی ابوجھل کی بیٹی سے شادی کا معاملہ

ہم ذیل میں اس روایت کی حقیقت بیان کرینگے، روایت ملاحظہ فرمائیں،

430 - حدثنا قیبة بن سعید قال حدثنا عبد العزیز بن أبی حازم عن أبی حازم عن سهل بن سعد قال

: جاء رسول الله صلى الله علیه و سلم بیت فاطمة فلم یجد علیا فی البیت فقال ( أین ابن عمک ) . قالت کان بینی وبینه شیء فغاضبنی فخرج فلم یقل عندی فقال رسول الله صلى الله علیه و سلم لإنسان ( انظر أین هو ) . فجاء فقال یا رسول الله هو فی المسجد راقد فجاء رسول الله صلى الله علیه و سلم وهو مضطجع قد سقط رداؤه عن شقه وأصابه تراب فجعل رسول الله صلى الله علیه و سلم یمسحه عنه ویقول ( قم أبا تراب قم أبا تراب )

البخاری ج 1 ص 169 الناشر : دار ابن کثیر ، الیمامة – بیروت الطبعة الثالثة ، 1407 – 1987 تحقیق : د. مصطفى دیب البغا

رسول اللہ ﷺحضرت فاطمہ کے گھر تشریف لے گئے دیکھا کہ علی ع گھر میں موجود نہیں ، آپ ﷺ نے دریافت کیا کہ تمھارے چچا کے بیٹے کہاں ہیں ؟ انہوں نے[حضرت فاطمہ ع] کہا کہ میرے اور‌‌ان‌کے درمیان کچھ ناگواری پیش آگئی اور وہ مجھ پر خفا ہوکر کہیں باہر چلے گئے ہیںاور میرے یہاں قیلولہ بھی نہیں کیا ہے اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص سےکہا کہ علی ع کو تلاش کرو کہ کہاں ہیں ؟ وہ آئے اور بتایاکہ مسجد میں سو رہے ہیں ، پھر نبی کریم ﷺ تشریف لائے ، علی ع لیٹے ہوئے تھے مٹی لگ گئی تھی ۔ رسول اللہ ﷺ جسم سے دھول جھاڑ رہے تھے اور فرما رہے تھے اٹھو ابوتراب، اٹھو ابو تراب۔

اس روایت سے اخذ کئے گئے کچھ نکات۔

۱۔ حضرت علی ع بی بی فاطمہ پر خفا ہوگئے تھے،

۲۔ بی بی فاطمہ کو پتہ نہیں تھا کہ حضرت علی کہاں ہیں،

۳۔ حضرت علی کو ڈھونڈنے کے لئے نبی اکرم نے ایک شخص کو بھیجا۔

۴۔ ڈھونڈنے والے شخص نے آکر خبر دی کہ حضرت علی مسجد میں ہیں،

اب بخاری کی دوسری روایت کی طرف رجوع کرتے ہیں وہاں دیکھتے ہیں کہ کیا یہ چار نکات ثابت ہوتے ہیں یا نہیں ،

بخاری کی دوسری روایت ملاحظہ ہو،

3500 - حدثنا عبد الله بن مسلمة حدثنا عبد العزیز بن أبی حازم عن أبیه

: أن رجلا جاء إلى سهل بن سعد ..........

قال دخل علی على فاطمة ثم خرج فاضطجع فی المسجد فقال له النبی صلى الله علیه و سلم ( أین ابن عمک ) . قالت فی المسجد فخرج إلیه فوجد رداءه قد سقط عن ظهره وخلص التراب إلى ظهره فجعل یمسح التراب عن ظهره فیقول ( اجلس یا أبا تراب ) . مرتین

ایک دفعہ حضرت ع حضرت فاطمہ کے ہاں آئے اور پھر باہر آکر مسجد میں لیٹ رہے ، پھر آپ ﷺ نے [ حضرت فاطمہ ع] سے دریافت کیا ، تمھارے چچا کے بیٹے کہاں ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ مسجد میں ہیں ۔ آپ ﷺ مسجد میں تشریف لائے دیکھا تو علی ع کی چادر [ عبا] پیٹھ سے نیچے گرگئی ہے اور‌‌ان‌کی کمر پر اچھی طرح سے خاک لگ چکی ہے۔ آپ ﷺ مٹی‌‌ان‌کی کمر سے صاف فرمانے لگے اور بولے اٹھو اے ابوتراب ، [ دو دفعہ کہا]

البخاری ج 3 ص 1358 الناشر : دار ابن کثیر ، الیمامة – بیروت الطبعة الثالثة ، 1407 – 1987 تحقیق : د. مصطفى دیب البغا

پہلی روایت کے چار نکات ، دوسری روایت کی نظر میں،

۱ ۔ دوسری روایت میں یہ کہیں بھی ذکر نہیں کہ مولا علی ع بی بی فاطمہ پر خفا ہوئے تھے،

۲۔ دوسری روایت کے مطابق حضرت فاطمہ کو پتہ ہے کہ مولا علی مسجد میں ہیں ،

۳۔ دوسری روایت میں کہیں بھی ذکر نہیں کہ رسول اللہ نے مولا علی کو ڈھونڈنے کے لئے کسی کو بھیجا ہو،

۴۔ دوسری روایت میں یہ بھی موجود نہیں کہ ڈھونڈنے والے شخص نے آکر مولا علی کے مسجد میں ہونے کی خبر رسول کو دی ہو،

ثابت یہ ہے کہ صحیح بخاری کی یہ دونوں روایتیں ایک دوسرے کے متعارض ہیں،

ہم بخاری کی کونسی روایت مان لیں پہلی والی یا دوسری والی،

جب کہ سچ تو یہ ہے کہ یہ ٹوٹل واقعہ سراسر جھوٹ پر مبنی ہے، چونکہ اہل بیت کے فضائل والی روایات میں جھوٹ ملا کر پیش کرنا جناب بخاری کی عادتوں میں سے ایک عادت تھی تاکہ بظاہر فضیلت والی روایت اہل بیت کی شان میں نقص بیان کرنے سے خالی نہ ہو،

جب کہ درست روایت کو جناب بخاری نے بالکل پیش ہی نہیں کی کہ جو اہل سنت کے باقی کتابوں میں موجود ہے کہ مولا علی ع کو ابوتراب کا لقب کب رسول اللہ نے دیا ہے،

علامہ ابن ابی عاصم المتوفی ۲۷۸ ھجری نے اپنی کتاب الاحاد والمثانی میں روایت نقل کی ہے کہ

175- حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ الأَقْطَعِ ، شَیْخٌ قَدِیمٌ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَزِیدَ بْنِ خُثَیْمٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ کَعْبٍ الْقُرَظِیِّ ، حَدَّثَنِی أَبُو بَکْرٍ یَزِیدُ بْنُ خُثَیْمٍ ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ یَاسِرٍ قَالَ : کُنْتُ أَنَا وَعَلِیٍّ رَفِیقَیْنِ فِی غَزْوَةِ الْعُسْرَةِ ، فَنَزَلْنَا مَنْزِلا فَرَأَیْنَا أُنَاسًا مِنْ بَنِی مُدْلِجٍ یَعْمَلُونَ فِی نَخْلٍ لَهُمْ ، فَقُلْتُ : لَوِ انْطَلَقْتُ إِلَى هَؤُلاءِ فَنَظَرْنَا إِلَیْهِمْ ، کَیْفَ یَعْمَلُونَ ؟

فَأَتَیْنَاهُمْ فَنَظَرْنَا إِلَیْهِمْ سَاعَةً ثُمَّ غَشِیَنَا النُّعَاسُ ، فَعَمَدْنَا إِلَى صَعِیدٍ ، فَنِمْنَا تَحْتَهُ فِی دَقْعَاءَ مِنَ التُّرَابِ ، فَقَالَ : مَا أَیْقَظَنَا إِلا رَسُولُ اللهِ صلى الله علیه وسلم ، أَتَانَا یَغْمِزُ عَلِیًّا بِرِجْلِهِ وَقَدْ تَرِبْنَا فِی ذَلِکَ التُّرَابِ ، فَقَالَ : قُمْ أَبَا تُرَابٍ ،

حضرت عمار بن یاسر فرماتےہیں کہ میں اور علی ع ساتھ تھے ہم ایک جگہ پر بنی مدلج کے کچھ لوگوں کو نخلستان میں کام کرتے ہوئے دیکھا ، میں نے کہا کہ اگر ہم‌‌ان‌لوگوں کے پاس گئے تو ہم‌‌ان‌لوگوں کو دیکھیں گے کہ یہ کیسے کام کرتے ہیں؟ ہم گئے اور ہم نے کچھ وقت تک‌‌ان‌لوگوں کو دیکھا پھر ہم پر نیند کی غنودگی ہوئی تو ہم وہاں مٹی پر ٹیک لگا بیٹھے [ لیٹ گئے] اور اسی مٹی والی جگہ پر ہم سو گئے، ہمیں رسول اللہ نے جگایا حضور نے اپنے پاوں سے مولا علی کی طرف اشارہ کیا اس حالت میں کہ ہمارے بدن خاک آلود ہوگئے تھے، اور کہا کہ اٹھو اے ابوتراب اٹھو اے ابو تراب

الآحاد والمثانی ج1 ص 119 أبو بکر بن أبی عاصم (المتوفى : 287هـ) المحقق : د. باسم فیصل أحمد الجوابرة الناشر : دار الرایة – الریاض الطبعة : الأولى ، 1411 - 1991

فدک کا مسئلہ اہل سنت کی کتابوں سے روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ نہ فقط کسی تاریخی کتاب سے بلکہ اہل سنت کے ہاں سب سے معتبرترین کتاب صحیح بخاری میں ذکر ہے کہ بی بی فاطمہ زھرائ سلام اللہ علیہا خلیفہ اول کے پاس فدک کا مطالبہ کرنے گئیں مگر خلیفہ نے فدک دینے سے انکار کیا ، اس پر بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا ناراض ہوئی، روایت کے الفاظ ہے کہ

فوجدت فاطمہ علی ابی بکر ،

بی بی فاطمہ حضرت ابوبکر سے ناراض ہوئی،

اہل سنت کے ہاں یہ مسلم روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جس نے فاطمہ کو غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا،

نتیجہ : حضرت ابوبکر نے رسول اللہ کو ناراض کیا ،

اسی نتیجے سے جان چھڑانے کے لئے اہل سنت ایک ایسی روایت کی طرف جاتے ہیں جس کو جناب بخاری بڑے شد و مد سے نقل کی ہے، اور وہ امام علی علیہ السلام کی ابوجھل کی بیٹی سے شادی کا معاملہ

ہم ذیل میں اس روایت کی حقیقت بیان کرینگے، روایت ملاحظہ فرمائیں،

430 - حدثنا قیبة بن سعید قال حدثنا عبد العزیز بن أبی حازم عن أبی حازم عن سهل بن سعد قال

: جاء رسول الله صلى الله علیه و سلم بیت فاطمة فلم یجد علیا فی البیت فقال ( أین ابن عمک ) . قالت کان بینی وبینه شیء فغاضبنی فخرج فلم یقل عندی فقال رسول الله صلى الله علیه و سلم لإنسان ( انظر أین هو ) . فجاء فقال یا رسول الله هو فی المسجد راقد فجاء رسول الله صلى الله علیه و سلم وهو مضطجع قد سقط رداؤه عن شقه وأصابه تراب فجعل رسول الله صلى الله علیه و سلم یمسحه عنه ویقول ( قم أبا تراب قم أبا تراب )

البخاری ج 1 ص 169 الناشر : دار ابن کثیر ، الیمامة – بیروت الطبعة الثالثة ، 1407 – 1987 تحقیق : د. مصطفى دیب البغا

رسول اللہ ﷺحضرت فاطمہ کے گھر تشریف لے گئے دیکھا کہ علی ع گھر میں موجود نہیں ، آپ ﷺ نے دریافت کیا کہ تمھارے چچا کے بیٹے کہاں ہیں ؟ انہوں نے[حضرت فاطمہ ع] کہا کہ میرے اور‌‌ان‌کے درمیان کچھ ناگواری پیش آگئی اور وہ مجھ پر خفا ہوکر کہیں باہر چلے گئے ہیںاور میرے یہاں قیلولہ بھی نہیں کیا ہے اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص سےکہا کہ علی ع کو تلاش کرو کہ کہاں ہیں ؟ وہ آئے اور بتایاکہ مسجد میں سو رہے ہیں ، پھر نبی کریم ﷺ تشریف لائے ، علی ع لیٹے ہوئے تھے مٹی لگ گئی تھی ۔ رسول اللہ ﷺ جسم سے دھول جھاڑ رہے تھے اور فرما رہے تھے اٹھو ابوتراب، اٹھو ابو تراب۔

اس روایت سے اخذ کئے گئے کچھ نکات۔

۱۔ حضرت علی ع بی بی فاطمہ پر خفا ہوگئے تھے،

۲۔ بی بی فاطمہ کو پتہ نہیں تھا کہ حضرت علی کہاں ہیں،

۳۔ حضرت علی کو ڈھونڈنے کے لئے نبی اکرم نے ایک شخص کو بھیجا۔

۴۔ ڈھونڈنے والے شخص نے آکر خبر دی کہ حضرت علی مسجد میں ہیں،

اب بخاری کی دوسری روایت کی طرف رجوع کرتے ہیں وہاں دیکھتے ہیں کہ کیا یہ چار نکات ثابت ہوتے ہیں یا نہیں ،

بخاری کی دوسری روایت ملاحظہ ہو،

3500 - حدثنا عبد الله بن مسلمة حدثنا عبد العزیز بن أبی حازم عن أبیه

: أن رجلا جاء إلى سهل بن سعد ..........

قال دخل علی على فاطمة ثم خرج فاضطجع فی المسجد فقال له النبی صلى الله علیه و سلم ( أین ابن عمک ) . قالت فی المسجد فخرج إلیه فوجد رداءه قد سقط عن ظهره وخلص التراب إلى ظهره فجعل یمسح التراب عن ظهره فیقول ( اجلس یا أبا تراب ) . مرتین

ایک دفعہ حضرت ع حضرت فاطمہ کے ہاں آئے اور پھر باہر آکر مسجد میں لیٹ رہے ، پھر آپ ﷺ نے [ حضرت فاطمہ ع] سے دریافت کیا ، تمھارے چچا کے بیٹے کہاں ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ مسجد میں ہیں ۔ آپ ﷺ مسجد میں تشریف لائے دیکھا تو علی ع کی چادر [ عبا] پیٹھ سے نیچے گرگئی ہے اور‌‌ان‌کی کمر پر اچھی طرح سے خاک لگ چکی ہے۔ آپ ﷺ مٹی‌‌ان‌کی کمر سے صاف فرمانے لگے اور بولے اٹھو اے ابوتراب ، [ دو دفعہ کہا]

البخاری ج 3 ص 1358 الناشر : دار ابن کثیر ، الیمامة – بیروت الطبعة الثالثة ، 1407 – 1987 تحقیق : د. مصطفى دیب البغا

پہلی روایت کے چار نکات ، دوسری روایت کی نظر میں،

۱ ۔ دوسری روایت میں یہ کہیں بھی ذکر نہیں کہ مولا علی ع بی بی فاطمہ پر خفا ہوئے تھے،

۲۔ دوسری روایت کے مطابق حضرت فاطمہ کو پتہ ہے کہ مولا علی مسجد میں ہیں ،

۳۔ دوسری روایت میں کہیں بھی ذکر نہیں کہ رسول اللہ نے مولا علی کو ڈھونڈنے کے لئے کسی کو بھیجا ہو،

۴۔ دوسری روایت میں یہ بھی موجود نہیں کہ ڈھونڈنے والے شخص نے آکر مولا علی کے مسجد میں ہونے کی خبر رسول کو دی ہو،

ثابت یہ ہے کہ صحیح بخاری کی یہ دونوں روایتیں ایک دوسرے کے متعارض ہیں،

ہم بخاری کی کونسی روایت مان لیں پہلی والی یا دوسری والی،

جب کہ سچ تو یہ ہے کہ یہ ٹوٹل واقعہ سراسر جھوٹ پر مبنی ہے، چونکہ اہل بیت کے فضائل والی روایات میں جھوٹ ملا کر پیش کرنا جناب بخاری کی عادتوں میں سے ایک عادت تھی تاکہ بظاہر فضیلت والی روایت اہل بیت کی شان میں نقص بیان کرنے سے خالی نہ ہو،

جب کہ درست روایت کو جناب بخاری نے بالکل پیش ہی نہیں کی کہ جو اہل سنت کے باقی کتابوں میں موجود ہے کہ مولا علی ع کو ابوتراب کا لقب کب رسول اللہ نے دیا ہے،

علامہ ابن ابی عاصم المتوفی ۲۷۸ ھجری نے اپنی کتاب الاحاد والمثانی میں روایت نقل کی ہے کہ

175- حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ الأَقْطَعِ ، شَیْخٌ قَدِیمٌ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یَزِیدَ بْنِ خُثَیْمٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ کَعْبٍ الْقُرَظِیِّ ، حَدَّثَنِی أَبُو بَکْرٍ یَزِیدُ بْنُ خُثَیْمٍ ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ یَاسِرٍ قَالَ : کُنْتُ أَنَا وَعَلِیٍّ رَفِیقَیْنِ فِی غَزْوَةِ الْعُسْرَةِ ، فَنَزَلْنَا مَنْزِلا فَرَأَیْنَا أُنَاسًا مِنْ بَنِی مُدْلِجٍ یَعْمَلُونَ فِی نَخْلٍ لَهُمْ ، فَقُلْتُ : لَوِ انْطَلَقْتُ إِلَى هَؤُلاءِ فَنَظَرْنَا إِلَیْهِمْ ، کَیْفَ یَعْمَلُونَ ؟

فَأَتَیْنَاهُمْ فَنَظَرْنَا إِلَیْهِمْ سَاعَةً ثُمَّ غَشِیَنَا النُّعَاسُ ، فَعَمَدْنَا إِلَى صَعِیدٍ ، فَنِمْنَا تَحْتَهُ فِی دَقْعَاءَ مِنَ التُّرَابِ ، فَقَالَ : مَا أَیْقَظَنَا إِلا رَسُولُ اللهِ صلى الله علیه وسلم ، أَتَانَا یَغْمِزُ عَلِیًّا بِرِجْلِهِ وَقَدْ تَرِبْنَا فِی ذَلِکَ التُّرَابِ ، فَقَالَ : قُمْ أَبَا تُرَابٍ ،

حضرت عمار بن یاسر فرماتےہیں کہ میں اور علی ع ساتھ تھے ہم ایک جگہ پر بنی مدلج کے کچھ لوگوں کو نخلستان میں کام کرتے ہوئے دیکھا ، میں نے کہا کہ اگر ہم‌‌ان‌لوگوں کے پاس گئے تو ہم‌‌ان‌لوگوں کو دیکھیں گے کہ یہ کیسے کام کرتے ہیں؟ ہم گئے اور ہم نے کچھ وقت تک‌‌ان‌لوگوں کو دیکھا پھر ہم پر نیند کی غنودگی ہوئی تو ہم وہاں مٹی پر ٹیک لگا بیٹھے [ لیٹ گئے] اور اسی مٹی والی جگہ پر ہم سو گئے، ہمیں رسول اللہ نے جگایا حضور نے اپنے پاوں سے مولا علی کی طرف اشارہ کیا اس حالت میں کہ ہمارے بدن خاک آلود ہوگئے تھے، اور کہا کہ اٹھو اے ابوتراب اٹھو اے ابو تراب

الآحاد والمثانی ج1 ص 119 أبو بکر بن أبی عاصم (المتوفى : 287هـ) المحقق : د. باسم فیصل أحمد الجوابرة الناشر : دار الرایة – الریاض الطبعة : الأولى ، 1411 - 1991

تعداد صفحات : 1

آمار سایت
  • کل مطالب : 13
  • کل نظرات : 0
  • افراد آنلاین : 1
  • تعداد اعضا : 0
  • بازدید امروز : 18
  • بازدید کننده امروز : 19
  • باردید دیروز : 42
  • بازدید کننده دیروز : 43
  • گوگل امروز : 0
  • گوگل دیروز : 0
  • بازدید هفته : 383
  • بازدید ماه : 243
  • بازدید سال : 1202
  • بازدید کلی : 16406
  • کدهای اختصاصی