loading...

سید ابوعماد حیدری

اہل سنت اور وھابیت کے شبھات کے جوابات، مذھب اہل بیت کی حقانیت ، کتب سے سکین پیجز

بازدید : 3
دوشنبه 14 بهمن 1403 زمان : 10:57
  • 1
  • 2
  • 3
  • 4
  • 5

سید ابوعماد حیدری

محمد باقر علیہ الصلاۃ والسلام کی شان میں ایک بہت ہی جالب حدیث ہے کہ جو کئی حدیثیں کتابوں میں وارد ہوئی ہیں لیکن اس وقت میں پڑھ رہا ہوں وہ کافی سے ہیں

کافی جلد اول یعنی اصول کافی دو سو اٹھانوے صفحہ ہیں یہاں پہ یہ حدیث امام صادق علیہ الصلاۃ والسلام سے ہیں فرماتے ہیں

کہ جابر بن عبداللہ انصاری یہ آخری صحابی میں سے ہیں یعنی اصحاب میں سے جو سب سے آخر تک رہیں‌‌ان‌میں وہ جابر بن عبداللہ انصاری ہیں وہ مسجد رسول اللہ میں یہ بیٹھتے تھے اور‌‌ان‌کے سر پر ایک بلیک عمامہ ہوا کرتا تھا ایک بلیک عمامہ باندھ کر یہ مسجد میں بیٹھتے تھے مسجد نبوی میں ،اور پھر ندا دیا کرتے تھے بلند آواز سے پکارتے تھے یا باقر العلم ، یا باقر العلم ،یعنی شگافتہ کرنے والا یعنی دراڑ پیدا کرنے والا اور امام علیہ سلام کو امام باقراس لیے کہا جاتا ہے کہ امام علیہ السلام نے مختلف علوم کو بیان کیا ہے مختلف علوم کی توضیح کی ہے ۔تو امام کو باقر العلم کہا جاتا ہے تو وہ کہا کرتے تھے یا باقر العلم۔

اب یہ اہل مدینہ جب سنتے تھے کہ جابر بن عبداللہ انصاری مسجد میں بیٹھ کر باقر العلم باقر العلم کی صدائیں دیا کرتے ہیں تو اہل مدینہ نےیہ کہنا شروع کیا کہ جابر بن عبداللہ ہذیان کہہ رہے ہیں اپنے حواس کھو بیٹھے ہیں یعنی صحابی رسول ہیں صحابی رسول کے بارے میں اہل مدینہ کہتے ہیں کہ جابر ہذیان کہہ رہے ہیں ۔ یہجر (ہذیان) کے کلمہ سے ہم زیادہ اشنا ہے رسول خدا کے بارے میں بھی یہی کلمہ استعمال ہوا تھا۔

حضرت جابر‌‌ان‌کے جواب میں کہا کرتے تھے :اللہ کی قسم! میں ہذیان نہیں کہہ رہا ہوں اور نہ ہی میں اپنے حواس کھو بیٹھا ہوں۔ میں اپنے ہوش میں یہ باتیں کر رہا ہوں چونکہ میں نے رسول اللہ کو سنا ہے ۔رسول اللہ نے مجھے فرمایا :اے جابر! تم ایک ایسے شخص سے ملو گے جو مجھ سےہوگا،وہ میرا ہم نام ہوگا جو میرا نام ہے وہی نام اس کا بھی ہوگا اور وہ ظاہری شکل و صورت میں بھی میرا شبیہ ہوگا، اوروہ علم کو بیان کرے گا علوم کی توضیح کرے گا علوم کی تبیین کرے گا۔

حضرت جابر ایک دفعہ انہوں نے مدینہ کی ایک گلی میں مدینہ کی گلی سے گزر رہے تھے کہ وہاں پہ انہوں نے کتاب دیکھے یعنی جو رائٹرز ہیں جو لکھتے ہیں اور‌‌ان‌میں سے امام محمد باقر بھی تھے جب انہوں نے امام محمد باقر علیہ السلام کو دیکھا تو حضرت جابر کہنے لگے: اے جوان! میری طرف بڑھیں میری طرف آئیں تو امام محمد باقر علیہ الصلاۃ والسلام حضرت جابر کی طرف آئے، پھر حضرت جابر نے کہا: اے جوان! اب واپس پلٹیں واپس جائیں تو امام واپس گئے؛ یعنی حضرت جابر دیکھا امام کا آنا بھی اور امام کا جانا بھی۔ دونوں کو دیکھنے کے بعد فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضے قدرت میں میری جان ہے! یہ تو رسول اللہ کے شمائل ہیں یہ تو رسول اللہ کی ظاہر‌ی شکل و صورت ہیں یہ تو بالکل رسول اللہ کے شبیہ ہیں ۔پھر کہا: اے جوان !آپ کا نام کیا ہے؟ توامام علیہ السلام نے فرمایا: میرا نام محمد بن علی ابن الحسین ہے یعنی میں امام زین العابدین کا بیٹا اور امام حسین علیہ الصلاۃ والسلام کا پوتا محمد ہوں ۔

تو حضرت جابر امام علیہ السلام کی طرف بڑھے ( دیکھیں صحابی رسول ہیں صحابی رسول ہیں اور سن کے لحاظ سے بھی بہت عمر رسیدہ ہیں) اب یہ ایک جوان کی طرف بڑھے اور کہا :میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں؛ آپ کے جد رسول خدا آپ کو سلام کہہ رہے ہیں۔ مجھے رسول اللہ نے بتایا ہے کہ آپ باقر العلم ہیں آپ علوم کو بیان کرنے والے ہیں آپ علوم کی توسیع کرنے والے ہیں

امام محمد باقر علیہ الصلاۃ والسلام گھر چلے گئے ہیں اور امام زین العابدین علیہ السلام کو یہ پورا قضیہ اور قصہ بتایا تو امام زین العابدین نے فرمایا کہ اے میرے بیٹے بس اپنے گھر میں ہی بیٹھیں۔ کیونکہ لوگوں کو معلوم ہوگا کہ آپ میرے بعد امام ہیں۔ پھر وہ مشکلات کھڑی کریں گے اور شاید ہی‌‌ان‌کے قتل اور‌‌ان‌کے شہادت منصوبہ بھی تیار کریں۔

حضرت جابر صبح و شام امام محمد باقر کے پاس آیا کرتے تھے اہل مدینہ کہا کرتے تھے : تعجب ہے جابر بن عبداللہ انصاری پر! صبح شام اس جوان کے پاس آتا ہے حالانکہ اے جابر بن عبداللہ انصاری! آپ رسول اللہ کے اصحاب میں سے ہیں آپ سن رسیدہ آدمی‌ہیں آپ ایک جوان کے پاس صبح و شام آتے ہیں؟

لکھا ہے اس حدیث میں کہ جب امام زین العابدین کی شہادت ہوئی تو امام محمد باقر علیہ الصلاۃ والسلام یہ بڑا زبردست جملہ یہاں پہ اس حدیث میں بیان ہوا ہے کہ جو واقعا خود ہمیں بھی اس پہ دینی چاہیے اور ہمارے جو مخالفین ہیں‌‌ان‌کو بھی توجہ دینی چاہیے تو امام محمد باقر علیہ الصلاۃ والسلام اپنے والد کی شہادت کے بعد حضرت جابر کے پاس آیا کرتے تھے اور حضرت جابر کے پاس‌‌ان‌کی عزت اور احترام کے لیے کیوں کیونکہ حضرت جابر رسول اللہ کے صحابی ہیں.

صحابی ہونے کی وجہ سے امام محمد باقر علیہ الصلاۃ والسلام حضرت جابر کے پاس آئے آتے ہیں حضرت جابر کی عزت اور احترام کے لیے تکریم کے لیے آتے ہیں

یعنی ایسا نہیں ہے کہ ہم اصحاب کو نہیں مانتے. ہم تو صحابہ کے اتنے احترام کے قائل ہیں کہ ہمارے امام بھی‌‌ان‌کی عزت و احترام کے لیے جاتے ہیں. جن کے اوپر بھی صحابی کی جو تعریف ہے جو واقعا قرآن اور حدیث کو سامنے رکھ کر جو تعریف نکالی جائے جو تو قرآن کے تمام کے تمام آیات اور احادیث کو سامنے رکھ کر وہ تعریف جس پر بھی فٹ آئے اور جو بھی مصداق بنے، ظاہر ہے اس کے نام پر ہم جان بھی قربان کرنے کے لیے تیار ہیں

امام محمد باقر علیہ الصلاۃ والسلام آتے تھے کن کی خدمت میں ؟ حضرت بن عبداللہ انصاری کی خدمت میں اور حدیث کے الفاظ ہیں کیوں آتے تھے؟ احترام کے لیے۔ کیوں احترام کے لیے؟ کیونکہ وہ رسول اللہ کے صحابی ہیں.

امام علیہ السلام بیٹھتے تھے امام علیہ السلام اہل مدینہ کے درمیان بیٹھ کر اہل مدینہ کو تعلیم دیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اللہ نے فرمایا ہے.

اب ظاہر ہے اہل مدینہ پھر یہ قبول نہیں کرتے تھے. جن کے پاس اہل بیت کی وہ معرفت نہ ہوں تو وہ تو سند کے مطالبے کرتے ہیں کہ ہمیں سند بتائیں تو انہوں نے کہا کہ امام محمد باقر علیہ الصلاۃ والسلام کیوں سند بیان نہیں کرتے؟ یہ نبی تو نہیں ہیں جو کہتے ہیں کہ اللہ نے فرمایا ہے۔ تو پہلے سند بیان کریں رسول اللہ تک پھر کہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ مجھے اللہ نے بتایا ہے۔

اب امام علیہ الصلاۃ والسلام نے اس اعتراض کی وجہ سے یہ کہنا شروع کیا کہ رسول اللہ نے فرمایا ہے۔ جب کہا: رسول اللہ نے فرمایا ہے توپھر بھی اہل مدینہ نے کہا کہ یہ بھی نہیں ہو سکتا آپ نے رسول اللہ کو تو نہیں دیکھا ہے آپ نے کیسے رسول اللہ سے direct یہ حدیث سنی ہے direct یہ حدیث آپ رسول خدا سے نقل کر رہے ہیں حالانکہ آپ رسول اللہ کے زمانے میں نہیں گزرے ہیں؟

اس وجہ سے امام علیہ السلام مجبور ہو کر تاکہ لوگوں کو تعلیم دیں پھر امام علیہ السلام حدیث بیان کرتے تھے جابر بن عبداللہ سے کہ مجھے جابر عبداللہ انصاری نے بیان کیا ہے اور جابر بن عبداللہ انصاری کو رسول خدا نے بیان کیا ہے تو اب یہ سند‌‌ان‌لوگوں کے لیے متصل ہوئی۔

ظاہر ہے جن کے پاس وہ امامت کی معرفت اہل بیت کی معرفت نہ ہو تو پھر وہ سند کا مطالبہ کرتے ہیں اور یہ اسی وجہ سے بعض ہمارے مخالفین کہتے ہیں کہ آئمہ غیر معصومین کے پاس بھی گئے ہیں‌‌ان‌سے بھی حدیثیں لی ہیں حالانکہ بالکل غلط اور باطل موقف ہیں کیونکہ امام محمد باقر علیہ الصلاۃ والسلام نے جابر بن عبداللہ انصاری سے جو احادیث لی ہیں وہ اس وجہ سے لی ہیں کیونکہ لوگ سند کا مطالبہ کرتے تھے۔

جب امام علیہ الصلاۃ والسلام سند بیان کیا کرتے اور کہتے کہ مجھے جابر بن عبداللہ انصاری نے بیان کیا ہے اور‌‌ان‌کو رسول اللہ نے تو پھر اہل مدینہ کہا کرتے تھے کہ ہاں بالکل اب یہ درست ہے ۔ اہل مدینہ تب تصدیق کرتے تھے

اس کے بعد جابر بن عبداللہ انصاری آیا کرتے تھے امام محمد باقر علیہ الصلاۃ والسلام کے پاس اور‌‌ان‌سے تعلیم لیتے‌‌ان‌سے سیکھتے تھے

پس جو حدیث حضرت جابر کے واسطے سے امام بیان کرتے ہیں تو یہ اس وجہ سے نہیں ہے کہ رسول اللہ کی حدیث کا امام محمد باقر علیہ السلام کو پتا نہیں تھا اور حضرت جابر سے انہوں نے یہ حدیثیں سنی ہیں تب بیان کرتے ہیں۔ نہیں! بلکہ اہل مدینہ اعتراض کیا کرتے تھے کوئی حدیث سنتے ہی نہیں تھے اس لیے امام علیہ السلام نےحضرت جابر کے واسطے سے رسول اللہ کی احادیث بیان کی ہے ورنہ حضرت جابر تو خود امام کے قدموں میں بیٹھ کر سیکھتے تھے حضرت جابر نے تو امام محمد باقر علیہ السلام کی شاگردی اختیار کی ہے ۔

بازدید : 2
دوشنبه 14 بهمن 1403 زمان : 10:57
  • 1
  • 2
  • 3
  • 4
  • 5

سید ابوعماد حیدری

بسم اللہ الرحمن الرحیم

السلام علیکم

ناظرین ایام فاطمیہ سلام اللہ علیہا کی مناسبت سے آپ تمام کی خدمت میں تعزیت و تسلیت عرض ہے اسی مناسبت سے ہم حضرت زہرہ کی شہادت کے متعلق جو شبہات اٹھائے جاتے ہیں‌‌ان‌میں سے ایک شُبہہ کا جواب آج اس ویڈیو میں دینے جا رہے ہیں ۔

نہ فقط اہل سنت حضرات اس شبہہ کو اٹھاتے ہیں بلکہ بعض شیعہ بھی کم آگاہی اور کم علمی‌کی بنیاد پر یہی شبہہ اٹھاتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ شیعوں کے بہت ہی بڑے محدث اور عالم شیخ مفیدرحمتہ اللہ علیہ المتوفی چار سو تیرہ ہجری حضرت زہرہ کی شہادت کے منکر ہیں۔

اس شبہ کے لیے وہ لوگ شیخ مفیدرحمۃ اللہ علیہ کی کتاب کی طرف استناد کرتے ہیں جو کہ بہت ہی مشہور ہیں الارشاد کے نام سے شیخ مفید کی کتاب ہیں "الارشاد فی معرفت حجج اللہ علی العباد" ۔شیخ مفید کی وہاں پہ ایک عبارت ہے۔ اس کو پڑھ کر اسی سے استناد کرتے ہیں۔ کہ شیخ مفید رحمتہ اللہ علیہ وہ حضرت زہرہ کی شہادت کے منکر ہیں۔ اب آتے ہیں خود اس عبارت کی طرف اور اس عبارت کو پڑھتے ہیں۔ پھر اس عبارت کا جواب دیتے ہیں۔ اور ایک نہیں بلکہ کئی جوابات دیتے ہیں۔

شیخ مفیدرحمتہ اللہ علیہ کی کتاب الارشاد میں، وہ جلد اول صفحہ تین سو پچپن پہ لکھتے ہیں: شیعوں میں کچھ لوگ ذکر کرتے ہیں کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کا ایک بیٹا نبی کریمؐ کی رحلت کے بعد سقط ہوا ہے۔ اس کا نام رسول خداؐ نے محسنؑ رکھا تھا۔ ایسی روایات اہل سنت کی کتب میں بھی موجود ہیں کہ امیرالمومنین کے بیٹوں یعنی امام حسن، امام حسین اور حضرت محسن علیہم الصلاۃ والسلام کے نام خود رسول اللہ نے رکھے ہیں۔ اس طائفہ اور اس گروہ کے کے اس قول کے بنا پر اولاد امیر المومنین امیر المومنین علی علیہ الصلاۃ والسلام کی اولاد کی تعداد پھر اٹھائیس ہے۔ دراصل یہاں پہ شیخ مفید رحمتہ اللہ علیہ امیرالمومنین کے اولاد کا تذکرہ کرتے ہیں اور شیخ مفید نے شروع میں لکھا ہے کہ امیر المومنین کی اولاد وہ ستائیس ہیں ستائیس فرزندان ہیں امیر المومنین کے یہاں پہ اس قول کو ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ اگر اس قول کو بھی لے لیا جائے تو پھر امیر المومنین کی اولاد کی تعداد وہ اٹھائیس ہیں ۔

اب دیکھتے ہیں کیا جو شبہہ اٹھایا جاتا ہے کہ شیخ مفیدحضرت زہرہؑ کی شہادت کے منکر ہیں کیا واقعی درست ہے یا نہیں؟

تو سب سے پہلے ہم آتے ہیں اس عبارت میں جو لکھا ہے "فی شیعہ"دیکھتے ہیں کہ یہاں پہ شیعوں سے مراد کیا ہے اس عبارت سے متعلق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دیکھیں خود شیخ مفیدحضرت زہراء کی شہادت یا حضرت محسن کے وجود کے قائل نہیں ہیں۔ اگر خود قائل ہوتے تو یہاں پہ لکھتے کہ ہاں میں بھی قائل ہوں۔ انہوں نے نہیں لکھا ہے کہ میں بھی قائل ہوں۔ تو یہیں سے وہ استنباط کرتے ہیں یہیں سے یہ بات اور یہ شبہہ اٹھاتے ہیں کہ شیخ مفید خود حضرت زہرا کی شہادت یا حضرت محسن کے وجود کے قائل نہیں ہیں ۔

تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں پہ شیخ مفیدنے جو کچھ لکھا ہے اس سے مراد کیا ہے ۔ اس کے جواب کے لئے ہم کہیں اور نہیں جاتے بلکہ شیخ مفید کی اسی کتاب کی طرف رجوع کرتے ہیں یعنی خود الارشاد کی طرف رجوع کرتے ہیں شیخ مفید کی کتاب ہیں الارشاد اسی کتاب کے جلد دوم صفحہ نمبر بائیس پہ شیخ مفید نے شیعہ کے لفظ کو explain کیا ہے۔ شیخ مفیدلکھتے ہیں کہ شیعہ دو طرح کے لوگ ہیں امامی‌یعنی جو اماموں کو مان لیں جو بارہ امام کی امامت کو مان لیں اور زیدی شیعہ۔ جو شیعہ امامی‌ہیں وہ امامت میں نصوص کی اتباع کرتے ہیں نصوص کی پیروی کرتے ہیں وہ احادیث اور آیات کو دیکھتے ہیں جو آیات اور حدیث‌‌ان‌کو کہیں انہی کی پیروی کر کے وہ امام کی معرفت حاصل کرتے ہیں اور امام کی اطاعت کرتے ہیں نیز امام کو ہی اپنے لیے ہدایت کا مرکز سمجھتے ہیں لیکن زیدی حضرات اس شخص کو امام کہتے ہیں جو جہاد کی طرف دعوت دے جو تلوار اٹھائے لوگوں کو جہاد کی طرف بلائے۔

سب سے پہلی بات تو ہے کہ یہاں پہ شیعہ کو واضح کیا شیخ مفیدنے کہ شیعہ کا لفظ امامی‌کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور زیدی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے تو ہم پوچھتے ہیں کہ وہاں پہ جو ذکر کیا ہے کہ شیعوں میں افراد، ایک طائفہ یا ایک گروہ کہتے ہیں کہ حضرت محسن سقط ہوئے ہیں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے ایک بیٹا سقط ہوا ہے اور‌‌ان‌کا نام رسول اللہ نے محسن رکھا ہے تو کون سا طائفہ مراد ہے؟ زیدی طائفہ ہیں یا امامی‌ہیں ؟

دیکھیں ظاہر ہے امامی‌ہیں ہم امامی‌ہی یہی کہتے ہیں کہ شیعہ اثنا عشری کا عقیدہ ہے کہ حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا‌‌ان‌کا ایک بیٹا شہید ہوا ہے تو یہاں پہ مراد جو شیخ مفیدنے لی ہے وہ کون سا طائفہ ہے امامی‌ہیں ۔ شیخ مفید خود کہتے ہیں کہ شیعہ زیدی ہیں یا امامی‌ہیں۔اب شیخ مفید کی عبارت میں شیعہ سے مراد کون سے شیعہ ہیں۔ زیدی شیعہ یا امامی‌شیعہ؟ تو واضح ہے اورہر کوئی یہی سمجھتا ہے کہ وہاں پہ مراد امامی‌ہیں۔ یعنی شیعوں میں جو امامی‌طائفہ ہیں۔ جو امامی‌مذہب کے لوگ ہیں۔ جو اثناء عشری لوگ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہ کا ایک بیٹا وہ سقط ہوا ہے۔ یعنی حضرت محسن شہید ہوئے ہیں۔

اب دوسرا سوال جو اسی عبادت سے لیا گیا ہے کہ شیخ مفیدنے تو خود وہاں پہ اپنے آپ کو add نہیں کیا ہے کہ میں بھی یہی کہتا ہوں ، اگر شیخ مفیدخود قائل ہوتے تو ضرور کہتے کہ ہاں شیعوں کا ایک طائفہ بھی کہتا ہے اور میں بھی کہتا ہوں ۔

اس کا جواب یہ ہے: جہاں پہ شیخ مفیدنے شیعہ کے لفظ کو بیان کیا ہے explain کیا ہے کہ شیعہ کن کو کہا جاتا ہے دوبارہ ہم رجوع کر ہیں اسی عبارت کی طرف شیخ مفیدکہتے ہیں امامی‌ہیں اور زیدی ہیں امامی‌کون ہیں جو نصوص کی اتباع کریں امامت کے مسئلے میں جو نصوص کی طرف دیکھیں جو نصوص کی پیروی کریں جو قرآن اور حدیث کی پیروی کریں تو یہاں پہ کیا شیخ مفید نے کہا ہے کہ میں بھی یہی کہتا ہوں؟کیا اس عبارت سے استدلال کر کے کوئی کہہ سکتا ہے کہ شیخ مفید امامی‌مذہب کے قائل ہی نہیں ہیں؟ وہ امامی‌مذہب کے پیروکار ہی نہیں ہیں؟ وہ امام‌ی مذہب کا ماننے والا ہی نہیں ہے؟ کیا کوئی ایسا کہہ سکتا ہے ؟ ہرگزنہیں ۔ ظاہر ہے یہاں پہ شیخ مفید رحمتہ اللہ علیہ ایک مسئلے کو بیان کر رہے ہیں یہاں پہ ضروری نہیں کہ وہ کہیں کہ میں بھی اس کا قائل ہوں یا قائل نہیں ہوں یا اس عبارت سے آپ یہ نتیجہ نہیں لے سکتے کہ شیخ مفید خود قائل نہیں ہیں جس طرح یہاں پہ آپ اس عبارت سے یہ نتیجہ نہیں لے سکتے کہ شیخ مفید امامت کے یا اس عشری مذہب کے قائل ہی نہیں ہیں، ویسے ہی وہاں پہ بھی آپ یہ نتیجہ نہیں لے سکتے کہ شیخ مفید حضرت زہرہ کے بیٹے حضرت محسن کے سقط ہونے کے قائل ہی نہیں ہیں ۔ اگر آپ وہاں پہ یہ نتیجہ لیتے ہیں تو آپ کو یہاں پر بھی یہی نتیجہ لینا پڑے گا یعنی آپ کو پھر شیعہ کے مذہب سے یعنی شیعہ اسن عشری کے عقیدے سے شیخ مفید کو نکالنا پڑے گا آپ کو کہنا پڑے گا کہ شیخ مفید رحمتہ اللہ علیہ اثنا عشری مذہب کے پیروکار ہی نہیں ہیں۔ تو ظاہر ہے کہ شیخ مفید اعلام میں سے ایک عالم ہے اعلام میں سے شمار کیے جاتے ہیں بڑے علماء میں سے شمار کیے جاتے ہیں بڑے محدثین میں سے شمار کیے جاتے ہیں ۔ دوسرا جواب وہ یہ کہ یہاں پہ شیخ مفید رحمتہ اللہ علیہ خود یہ بیان نہیں کرتے کہ حضرت محسن سقط ہوئے ہیں یا نہیں۔ بلکہ شیخ مفید رحمتہ اللہ علیہ حضرت امیر المومنین علی علیہ الصلاۃ والسلام کی اولاد کی تعداد کو ذکر کرتے ہیں۔ انہوں نے اس بات کی شروع میں ہی کہا ہے کہ امیرالمومنین کی اولاد کی تعداد ستائیس ہیں۔ پھر اس قول کو ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ اس قول کے بنا پر حضرت امیر المومنین کی اولاد اٹھائیس ہیں۔ جیسا کہ خود اہل سنت عالم مطالب السوول میں اہلسنت کے بہت ہی بڑے عالم جناب شافعی وہ بھی لکھتے ہیں:" جان لو کہ لوگوں کے جو اقوال ہیں وہ امیر المومنین کے اولاد کے تعداد میں وہ مختلف ہیں یعنی مختلف ہیں اولاد کی تعداد۔اس میں لوگوں کے اقوال مختلف ہیں ۔کوئی کہتا ہے اٹھائیس ہیں کوئی کہتا ہے ستائیس ہیں۔ کیوں؟ وجہ کیا ہے بعض کہتے ہیں کہ زیادہ ہیں بعض کہتے ہیں کہ کم ہیں؟ چونکہ بعض سقط شدہ بچوں کو بھی گن لیتے ہیں اور بعض اُن کو نہیں گنتے۔وہ قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ امیرالمومنین کے بیٹے ہیں لیکن چونکہ سقط ہوئے ہیں اس دنیا میں نہیں آئے ہیں بلکہ آنے سے پہلے ہی وہ سقط ہوئے ہیں لہذا‌‌ان‌کو بیٹوں کی جو تعداد بیان جاتی ہیں وہاں شمار نہیں کرتے یعنی امیر المومنین کے بیٹے ہونے کے انکار نہیں کرتے یہ نہیں کہتے کہ حضرت محسن امیرالمومنین کا بیٹا ہے ہی نہیں، بلکہ کہتے ہیں کہ چونکہ یہ بیٹا ہے لہذا وہ اولاد کی تعداد میں شمار نہیں کرتے یہ خود اہل سنت عالم کہتے ہیں ۔

بہ الفاظ دیگر شیخ مفیدیہاں پہلے‌‌ان‌لوگوں کا قول نقل کرتے ہیں کہ جو صقط شدہ بیٹوں کو ذکر نہیں کرتے اولاد میں، اور کہتے ہیں کہ امیرالمومنین کی اولاد کی تعداد ستائیس ہے پھر ایک ایک کا نام لیتے ہیں اور پھر‌‌ان‌کے قول کے مطابق کہ جو سقط شدہ بیٹے کو بھی اولاد کی تعداد میں شمار کرتے ہیں ذکر کر کے کہتے ہیں کہ اس قول کے مطابق امیر المومنین کی اولاد کی تعداد اٹھائیس ہیں۔ اب اس عبارت سے کہاں سے آپ یہ استنباط کرتے ہیں کہ شیخ مفید رحمتہ اللہ علیہ حضرت زہرہ کے بیٹے حضرت محسن کے وجود کے قائل نہیں ہیں؟ یا حضرت زہرہ کی شہادت کے قائل نہیں ہیں؟ یہ کہاں سے آپ نے نتیجہ لیا ہے۔یہ دوسرا جواب ۔

تیسرے جواب کی طرف آتے ہیں وہ یہ کہ خود اہل سنت علماء نے مانا ہے کہ شیخ مفیدرحمتہ اللہ علیہ حضرت زہرہ کی شہادت کے قائل ہیں نہ فقط قائل ہیں بلکہ حضرت زہرہ کی شہادت کے نوحے پڑھتے ہیں حضرت زہرہ کی شہادت میں گریا کرتے ہیں روتے ہیں۔جیسا کہ اہل سنت عالم جناب عبدالجبار بہت ہی مشہور عالم ہیں یہ خود شیخ کے زمانے کے ہیں شیخ مفید چار سو تیرہ ہجری میں فوت ہوئے ہیں اور عبدالجبار چار سو پندرہ ہجری میں فوت ہوئے ہیں یعنی شیخ مفید رحمتہ اللہ علیہ کے وفات کے دو سال بعد یہ فوت ہوئے ہیں‌‌ان‌کے زمانے کے عالم ہیں اہلسنت کے‌‌ان‌کے زمانے کا عالم شیخ مفید کے معاصر عالم وہ اپنی کتاب تثبیت دلائل النبوۃ دوسرے جلد صفحہ پانچ سو چورانوے پہ علماء شیعہ علماء کے نام لیتے ہیں اور پھر دوسرے صفحے پہ کہتے ہیں محمد ابن نعمان ، شیخ مفید شیخ مفید رحمۃ اللہ علیہ کا نام محمد ابن نعمان ہے ۔ شیخ مفید سمیت یہ تمام کے تمام علماء یہ دعوی کرتے ہیں تشیع کا اور رسول اللہ اور‌‌ان‌کے اہل بیت کی محبت کا، نیز یہ حضرت فاطمہ اور‌‌ان‌کے بیٹے حضرت محسن کی شہادت میں روتے ہیں ان کا عقیدہ یہ ہے یعنی شیخ مفید سمیت تمام‌‌ان‌شیعہ علماء کے جن کے نام علامہ عبدالجبار نے لیے ہیں یہ تمام کے تمام عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت عمر نے حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا اور‌‌ان‌کے بیٹے حضرت محسن کو شہید کیا یعنی بالکل واضح لکھا ہے کہ شیخ مفید رحمہ اللہ حضرت محسن کے غم میں گریا کرتے ہیں حضرت محسن کی شہادت پہ گریا کرتے ہیں روتے ہیں اور عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت عمر نے حضرت محسن کو شہید کیا ہے جب خود سنی عالم کہتے ہیں کہ شیخ مفید حضرت زہرہ کے شہادت میں اور حضرت محسن کی شہادت میں روتے ہیں تو اب کون سی دلیل ہے جس کے بنا پر آپ کہتے ہیں کہ شیخ مفید وہ حضرت زہرہ کی شہادت کے قائل نہیں ہیں یا حضرت محسن کی شہادت کے قائل نہیں ہیں ؟ وہ دلیل تو سامنے لائیں جب نہ فقط شیعہ بلکہ سنی علماء قائل ہیں کہ شیخ مفید حضرت زہرہ کی شہادت کو مانتے ہیں اور‌‌ان‌کی شہادت میں روتے ہیں تو یہاں شک کی گنجائش ہی کہاں ہے؟

ایک چوتھا جواب بھی دینے جا رہے ہیں چوتھا جواب یہ ہے کہ خود ہم شیخ مفیدکے جو direct شاگرد ہیں‌‌ان‌کی کتابوں کی طرف رجوع کرتے ہیں کہ کیا انہوں نے اپنی تحریروں میں اپنی کتابوں میں کوئی ایسی بات لکھی ہے جس سے یہ اندازہ ہو جائے کہ شیخ مفیدرحمتہ اللہ علیہ حضرت زہرہ کی شہادت کے قائل نہیں تھے۔ یہ بات ہمیں دیکھنی پڑے گی کہ کیا‌‌ان‌لوگوں نے یعنی‌‌ان‌کے شاگردوں نے جن کے شاگرد اپنے زمانے کے بہت بڑے علماء میں شمار کیے جاتے تھے۔ اور‌‌ان‌کے بہت بڑے بڑے عظیم الشان شاگرد رہے ہیں۔ اور‌‌ان‌کے شاگرد بھی شیعوں کے اعلام علماء میں سے شمار کیے جاتے ہیں۔ بڑے محدثین میں سے شمار کیے جاتے ہیں۔ کیا انہوں نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ ہمارے استاد شیخ مفید حضرت زہرہ کے شہادت کے قائل نہیں تھے؟

تو سب سے پہلے ہم آتے ہیں شریف مرتضی یعنی سید مرتضی رحمتہ اللہ علیہ المتوفی چار سو چھتیس ہجری یہ اپنی کتاب الشافی فی الامامہ مشہور کتاب ہے اور یہ کتاب رد ہے اسی سنی عالم عبدالجبار کی ۔ جس کا حوالہ ہم نے پیش کیا جنہوں نے کہا ہے کہ شیخ مفیدحضرت زہرہ کی شہادت میں روتے ہیں اس کے رد میں سید مرتضی نے یہ کتاب لکھی ہے الشافی فی الامامہ ۔الشافی فی الامامہ کے تیسری اور چوتھی جلد جو ساتھ چھپی ہیں اس کے صفحہ نمبر دو سو اکتالیس پہ وہ حضرت زہرا کی شہادت یعنی یہ جو گھر کے دروازے کو آگ لگانے کا جو واقعہ ہے اس کو ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں : شیعوں نے‌‌ان‌روایات کو کثرت سند یعنی کثرت سے نقل کیا ہے بہت ساری سندوں سے نقل کیا ہے یہ واقعہ کوئی ایک یا دو سندوں پر موقوف نہیں ہے کثرت اسناد کے ساتھ کئی اسناد کے ساتھ یہ روایت یہ واقعہ نقل ہوا ہے اور پھر کہتے ہیں اسی صفحہ میں روایت نقل کر کے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ امیرالمومنین نے بیعت نہیں کی خلیفہ کی یہاں تک کہ انہوں نے دیکھ لیا کہ امیر المومنین کے گھر سے دھواں نکل آیا یعنی دھوئیں کو جب دیکھ لیا آگ لگائی گئی جب آگ دیکھ لیا تو امیرالمومنین نے اس وقت تک بیعت نہیں کی۔

یعنی یہ واقعہ نقل کرتے ہیں خود شیخ مفیدکے شاگرد اگر یہاں پہ کوئی مخالفت والی بات ہوتی تو کیا یہاں پہ سید مرتضی نہ لکھتے؟ جو‌‌ان‌کے direct شاگرد ہیں۔ ضرور لکھتے جب کہ سید مرتضی کی کتابیں خالی ہیں اس بات سے کہ شیخ مفیدحضرت زہرہ کی شہادت کے قائل نہیں ہیں۔ یہاں پہ شیخ مفید کے بارے میں سید مرتضی نے نہیں لکھا ہے کہ وہ قائل نہیں ہے بلکہ لکھا ہے کہ یہ خبر حضرت زہرہ کی شہادت کا واقعہ گھر کو آگ لگانے کا واقعہ بہت ساری سندوں کے ساتھ شیعوں نے نقل کی ہے۔‌‌ان‌کا دارومدار کوئی ایک یا دو سندوں پر نہیں ہے۔ بہت ساری سندوں سے یہ واقعہ شیعوں نے نقل کیا ہے۔ یہ ایک شاگرد ہیں شیخ مفید کے۔

اب دوسرے شاگرد شیخ طوسی رحمۃ اللہ علیہ۔ شیخ طوسی رحمتہ اللہ علیہ بہت بڑے علماء میں سے شمار کیے جاتے ہیں اور شیخ مفیدکے شاگرد ہیں شیخ طوسی رحمۃ اللہ علیہ المتوفی چار سو ساٹھ ہجری انہوں نے اپنی کتاب تلخیص الشافی یعنی جو کتاب سید مرتضی نے لکھی ہے الشافی فی الامامہ اسی کتاب کو تلخیص لکھی ہے شیخ طوسی نے تلخیص الشافعی کے نام سے۔ اسی کتاب کے تیسری اور چوتھی جلد صفحہ نمبر ایک سو چھپن پہ یہ لکھتے ہیں :روایت ہوئی کہ‌‌ان‌لوگوں نے حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کو مورد ظلم و ستم قرار دیا ۔ یہ مشہور واقعہ ہے کہ جس میں کسی شیعہ کو کوئی اختلاف نہیں ہے کہ حضرت عمر نے حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا کو مورد ظلم و ستم ٹھہرایا جس کے نتیجے میں حضرت محسن شہید ہوئے.

اگر شیخ مفیدرحمتہ اللہ علیہ مخالف ہوتے تو وہ ضرور لکھتے کہ یہاں کچھ اختلاف موجود ہیں یا شیخ مفید نے اختلاف کیا ہے ۔ مزید لکھتے ہیں:شیعوں کے ہاں یہ روایت مشہور روایت ہے اور کسی کو حق نہیں ہے کہ اس روایت کا انکار کرے۔ کیونکہ‌‌ان‌روایات کو خود اہل سنت نے نقل کیا ہے اور شیعوں کی روایات بھی مستفید درجے میں ہیں‌‌ان‌روایات میں شیعوں کا کوئی اختلاف نہیں ہے سب مانتے ہیں کہ حضرت زہرا شہید ہوئی ہیں سب مانتے ہیں کہ حضرت محسن شہید ہوئے ہیں

تو شیخ مفیدکے direct شاگردان وہ تو کہتے ہیں کہ یہ روایات مشہور ہیں شیعوں کی کوئی اختلاف نہیں ہے مستفید روایات ہیں‌‌ان‌روایات میں کوئی اختلاف شیعوں کی طرف سے سامنے نہیں آیا ہے۔ ایسی صورت میں آپ کس دلیل کی بنا پر کہتے ہیں کہ شیخ مفیدحضرت زہرہ کی شہادت کے قائل نہیں ہیں؟

ایک اور جواب:وہ یہ کہ شیخ مفیدکی خود کتب کی طرف ہم رجوع کرتے ہیں شیخ مفید کی دیگر کتابیں بھی موجود ہیں کیا شیخ مفید نے اپنی دیگر کتابوں میں ایسی روایات نقل کی ہیں کہ جو حضرت زہرہ یا حضرت محسن کی شہادت پہ دلالت کرتی ہیں یا نہ؟ شیخ مفید نے اس واقعہ کا انکار کیا‌‌ان‌روایات کو اپنی کتابوں میں نقل نہیں کی ہیں؟ تو ایک یادو کتابیں نہیں بلکہ کئی کتابوں میں شیخ مفید نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے جیسا کہ شیخ مفید کی مشہور کتاب المزار میں وہ لکھتے ہیں

کتاب المزار صفحہ ون سیونٹی نائن پہ حضرت زہرہ سلام اللہ علیہا کی زیارت نقل‌‌ان‌الفاظ کے ساتھ نقل کی ہے: "ایتھا البتول الشہیدۃ الطاہرہ "سلام ہو آپ پر اے بتول کہ جو شہید ہوئی ہیں پاک دامن بی بی ہیں طاہرہ ہیں مطہرہ ہیں۔

ایک دیگر کتاب الامالی کے نام سے جو بہت ہی مشہور کتاب ہیں صفحہ نمبر چالیس پر ( اس کتاب میں بہت ساری جگہوں پہ حضرت زہرا کا یہ واقعہ انہوں نے نقل کیا ہے لیکن یہاں پہ جو انہوں نے نقل کیا صرف میں یہی صفحہ نمبر چالیس سے quote کرتا ہوں) روایت نقل کرتے ہیں کہ جب حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا سے فدک چھین لیا گیا فدک سے‌‌ان‌کو منع کیا گیا تو حضرت فاطمہ رسول صلی اللہ علیہ وآ لہ کے روضہ مبارک پہ گئیں اور خود کو رسول خدا کے قبر مبارک پہ گرایا اور‌‌ان‌لوگوں نے جو کچھ کیا حضرت زہرہ کے ساتھ جو سلوک روا رکھا اس کا شکوہ کیا رسول خدا کی بارگاہ میں اور گریہ کیا ۔ اتنا گریا کیا کہ حضرت زہرہ کے آنسوؤں سے رسول خدا کی قبر مبارک کی مٹی گیلی ہوئی پھر شکوہ کیا ۔یہاں اشعار لکھے ہیں اور ایک شعر یہ ہے کہ اے رسول خدا! ہمارے اوپر وہ مصائب ڈھائے گئے.

وہ مشکلات ڈھائے گئے.

کہ نہ عجم میں سے کسی پر وہ مشکلات آئے ہیں. نہ عرب میں سے کسی پر وہ مشکلات آئے ہیں.

نہ کسی عرب نے‌‌ان‌مشکلات کا سامنا کیا ہے. نہ کسی عجمی‌نےان مشکلات کا سامنا کیا ہے.‌‌ان‌مشکلات کا سامنا ہم نے کیا. ایسے مشکلات ہم پہ ڈھائے گئے جو کسی بشر پر نہیں ڈھائے گئے جس کا سامنا کسی بشر نے نہیں کیا ۔یہ شکوہ کر رہی ہے کون حضرت فاطمۃ الزہرا ۔ رسول خدا کی بارگاہ میں آتی ہے وہاں روتی ہیں گریا کرتی ہیں نقل کون کر رہا ہے شیخ مفیدرحمتہ اللہ علیہ۔

کیا اب بھی کہیں گے کہ شیخ مفیدقائل نہیں ہیں؟

شیخ مفیدکی ایک اور کتاب میں روایت نقل کرتے ہیں کہ جب خلیفہ اول کو خلافت ملی تو فدک سے حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کے وکلاء کو نکالا حضرت زہرہ آئیں انہوں نے مطالبہ کیا اور مطالبے کی صورت میں‌‌ان‌سے کہا گیا کہ گواہ پیش کریں حضرت زہرہ نے امیرالمومنین امام حسن امام حسین اور ام کو گواہ کے طور پر پیش کیا.ان سب نے گواہی دی. تو خلیفہ اول نے فدک واپس کیا. یہ نقل کرنے والا کون ہے? شیخ مفید رحمتہ اللہ علیہ ہیں. فدک واپس کیا. اب اس روایت پہ پوری توجہ دیں.فدک واپس کرنے کے بعد ایک سند لکھ کے حضرت زہرہ کو دی کہ یہ فدک آپ کا ہی ہے. حضرت زہرہ جب واپس جا رہی ہے. تو دوسرے خلیفہ سے‌‌ان‌کا سامنا ہوا. دوسرے خلیفہ نے کہا یہ کیا ہے آپ کے ہاتھ میں? کہا ایک کتاب سند ہے کہ جو خلیفہ اول نے لکھ کے دیا ہے تو خلیفہ دووم نے کہا کہ مجھے دکھا دیں حضرت زہرہ نے انکار کیا خلیفہ نے زبردستی حضرت زہرہ کے ہاتھ سے وہ سند چھین لی اور پھر اس سند کو چھیننے کے بعد پھاڑ لیا یہ روایت شیخ مفیدنے نقل کی ہے۔

اب اس روایت کو ایک اور کتاب میں اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان کی ہے اور وہ ہے الاختصاص۔( اگرچہ الاحتساس کے بارے میں شیعہ علماء کے ہاں اختلاف ہے کہ یہ شیخ مفیدکی کتاب ہے یا نہیں لیکن بہت سارے علماء ایسے موجود ہیں کہ جو کہتے ہیں کہ بالکل یہ شیخ مفید کی ہی کتاب ہے اس کی نسبت صحیح ہے یہ شیخ مفید نے ہی یہ کتاب لکھی ہے )تو الاختصاص میں پھر اس روایت کو صفحہ نمبر ایک سو پچاسی پر نقل کرنے کے بعد انہوں نے کچھ وضاحت بھی نقل کی ہیں وہ یہ ہیں کہ خلیفہ دوم نے وہ سند لے کر پھر اسے پھاڑا اور حضرت زہرہ کو مورد ظلم و ستم قرار دیا اسی ظلم ستم کی وجہ سے جو کچھ لوگوں نے انجام دیا حضرت محسن شہید ہوئے۔

یہ کون لکھ رہا ہے یہ شیخ مفیدرحمۃ اللہ علیہ لکھ رہا ہے اپنی کتابوں میں کیا اب‌‌ان‌تمام کے تمام نصوص کو سامنے رکھ کر‌‌ان‌ تمام کے تمام ادلۃ کو سامنے رکھ کر کوئی کہہ سکتا ہے کہ شیخ مفید حضرت زہرہ کی شہادت کا قائل نہیں ہے ؟کوئی کہہ سکتا ہے کہ شیخ مفید حضرت محسن کی شہادت کا قائل نہیں ہے ؟اگر آپ‌‌ان‌تمام اسناد کے باوجود بھی کہیں کہ شیخ مفید حضرت زہرہ کی شہادت یا حضرت محسن کی شہادت کے قائل نہیں ہیں تو پھر آپ دلائل لے کے آئیں۔ کن دلائل کے مطابق آپ کہتے ہیں۔

شیخ مفیدنے کیا خود لکھا ہے خود کہا ہے کہ میں قائل نہیں ہوں ؟جن کے شاگرد خود کہتے ہیں کہ یہ مشہور روایت ہے کوئی اختلاف نہیں ہے جو واقعات شیخ مفید اپنی دیگر کتابوں میں لکھتے ہیں کیا ہو سکتا ہے کہ وہی شیخ مفید پھر اپنی کتاب میں کچھ ایسے عبارات لکھیں کہ جن سے آپ کو یہ نتیجہ ملیں کہ شیخ مفید حضرت زہرہ کی شہادت کا قائل نہیں ہے ؟تو بجائے اس کے کہ اپنے اندازے لگائیں عبارات سے غلط نتیجے لیں خود شیخ مفید کی‌‌ان‌عبارات کو بھی سامنے لائیں‌‌ان‌کے شاگردوں کی عبارات کو بھی سامنے رکھیں شیخ طوسی سید مرتضی کی عبارات کو بھی سامنے رکھیں اور نتیجہ یہی لیں اس کے علاوہ کوئی نتیجہ کوئی لے ہی نہیں سکتا شیخ مفید حضرت زہرہ کی شہادت کے قائل ہیں بلکہ حضرت زہرہ کی شہادت کے ایسی روایات ہیں کہ جن پر کسی شیعہ کو کوئی اختلاف نہیں تھا۔ شیخ طوسی نے کہا ہے کہ یہ مشہور روایات ہیں مستفید روایات ہیں اس واقعہ پر کسی کو کوئی اختلاف نہیں ہے

وآخر دعوانا‌‌ان‌الحمد للہ رب العالمین

بازدید : 2
دوشنبه 14 بهمن 1403 زمان : 10:57
  • 1
  • 2
  • 3
  • 4
  • 5

سید ابوعماد حیدری

ویڈیو دیکھنے کے لئے اس لینک پر کلیک کریں:

https://www.youtube.com/watch?v=XuncdwNvcLw

السلام علیکم میرے اہل سنت بھائیوں!

اگر امیرالمومنین تلوار اٹھاتے اور حملہ کرنے والوں کا مقابلہ کرتے تو کیا آج آپ حملہ کرنے والوں سے برآت کرتے ؟

کیا آج آپ کہتے کہ ہم‌‌ان‌لوگوں کو نہیں مانتے جنہوں نے امیرالمومنین کے گھر پر حملہ کیا ہے کیوں کہ علی نے وہاں پہ تلوار اٹھائی ہے‌‌ان‌کا مقابلہ کیا ہے انہوں نے غلط کیا ہے کہ گھر پر حملہ کیا ہے ؟

اگر آپ کا جواب یہ ہو کہ ہاں ہم برائت کرتے، ہم‌‌ان‌کو نہ مانتے اور نہ ہی‌‌ان‌کو جنتی جنتی کہتے، تو آپ سب سے زیادہ جھوٹ بول رہے ہیں سب سے بڑا جھوٹ ہی یہی ہے.

کیونکہ جن کے خلاف علی علیہ السلام نے تلوار اٹھائی ہے آپ تو آج‌‌ان‌کے لیے جنتی جنتی کے نعرے لگا رہے ہیں۔آپ‌‌ان‌کے نام پر مدرسے کھول رہے ہیں. آپ‌‌ان‌کے نام پر مساجد کے نام رکھ رہے ہیں. تو آپ کا جو مطالبہ ہے کہ امیرالمومنین نے کیوں تلوار نہیں اٹھائی ہے یہ سوال وارد ہی نہیں ہوتا۔ کیوں جب حضرت علیؑ کی تلوار ہی آپ کے لئے معیار ہے تو جو امیرالمومنین کے مقابلے میں ہیں وہ سب غلط ہیں وہ باطل پر ہے۔ تو پھر تو جن کے خلاف امیرالمومنین نے جمل ، صفین یا نہروان میں جو تلواریں اٹھائی تھی‌‌ان‌سے آپ آج برائت کیوں نہیں کرتے؟ آپ کیوں آج‌‌ان‌کے قصیدے سناتے ہیں ؟کیوں آپ‌‌ان‌کے لیے تاریخی کلمات اور تعریفیں جملے کہتے ہیں ؟

اگر آپ کہیں کہ امیرالمومنین کا تلوار اٹھانا یہ دلیل ہےکہ فریق مخالف درست نہیں ہیں.‌‌ان‌کو نہ مانا جائے۔ تو پھر آپ صفین اور جمل کے لوگوں سے بھی ہاتھ اٹھائیں.

جنہوں نے امیرالمومنین کے مقابلہ کیا ہے امیر المومنین کی مخالفت میں آکر‌‌ان‌کے لیے مشکلات کھڑی کی ہیں۔‌‌ان‌سب سے آپ ہاتھ اٹھائیں.‌‌ان‌کے لیے آج کے بعد کوئی قصیدہ نہ سنائیں۔‌‌ان‌کے لیے کبھی بھی کوئی رضایت والے الفاظ اپنی زبان سے ادا نہ کریں۔ کیونکہ آپ کے ہاں پھر ملاک ہی یہی ہے.

اور اگر آپ آپ کے پاس یہ ملاک ہے ہی نہیں۔ اور آپ کے ہاں تلوار اٹھانے کے باوجود بھی سامنے والا شخص "اجتہد فاخطا "اجتہاد کیا ہے اور اجتہاد میں‌‌ان‌کو غلطی ہوئی ہے اور اللہ سے اجر بھی‌‌ان‌کو ملا ہے تو آج پھر آپ حضرت زہرہ سلام اللہ علیہا کی شہادت کا واقعہ مان کر بھی یہی کہتے کہ کچھ لوگوں نے حضرت زہرہ کو شہید کیا ہے اور اجتہاد کیا اجتہاد کے نتیجے میں غلطی کی ہے اور اللہ سے‌‌ان‌کو اجر بھی ملا ہے جیسا کہ آپ حضرت عمار ابن یاسر کے قاتل کے لیے بھی یہی کہتے ہیں ابن حزم اندلسی نے صاف لکھا ہے کہ ابو الغادیہ نے اجتہاد کیا ہے عمار ابن یاسر کو قتل کر کے اور اس اجتہاد کے بدلے میں اسے اجر بھی ملا ہے۔

آپ کے ہاں یہ بات کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتی کہ کون ظلم کر رہا ہے، کون مظلوم ہے، کون ظالم، کون مظلوم ہے۔ کون حق پر ہے اورکون باطل پر ہے ۔کیونکہ آپ دونوں کو حق پر سمجھ رہے ہیں اس ملاک اور معیار کا نتیجہ یہی ہے کہ اگر آپ کے لئے حضرت زہراء کی شہادت بھی ثابت ہوجائے تو حضرت زہرا کے مسئلے میں بھی آپ یہی کہتے کہ حملہ کرنے والوں نے اجتہاد کیا اور ایک اجر بھی ملا ہے۔

تو سب سے پہلے آپ اپنے مبانی اوراپنے ملاکات درست رکھیں۔ جو معیارات اور موازین ہیں وہ درست انتخاب کریں پھر آپ سوال کریں لیکن سوال کرنے سے پہلے آپ کو جمل اور صفین کے لوگوں سے جو امیرالمومنین کے مخالفت میں آئے تھے ہاتھ اٹھانا پڑے گا۔

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

بازدید : 640
سه شنبه 5 خرداد 1399 زمان : 23:21
  • 1
  • 2
  • 3
  • 4
  • 5

سید ابوعماد حیدری

سب سے افضل کون ؟

اہل سنت کی کتاب مسند امام احمد بن حنبل سے

صحیح روایت کے مطابق

امام احمد بن حنبل مولا علی علیہ السلام کے چیپٹر میں روایت لے کر آئے ہیں کہ

859 - حدثنا عبد الله حدثنی أبی ثنا أسود بن عامر حدثنی عبد الحمید بن أبى جعفر یعنى الفراء عن إسرائیل عن أبی إسحاق عن زید بن یثیع عن على رضی الله عنه قال قیل : یا رسول الله من یؤمر بعدک قال‌‌ان‌تؤمروا أبا بکر رضی الله عنه تجدوه أمینا زاهدا فی الدنیا راغبا فی الآخرة وان تؤمروا عمر رضی الله عنه تجدوه قویا أمینا لا یخاف فی الله لومه لائم وان تؤمروا علیا رضی الله عنه ولا أراکم فاعلین تجدوه‌هادیا مهدیا یأخذ بکم الطریق المستقیم

امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ کسی نے رسول اللہ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ آپ کے بعد ہم کس کو اپنا امیر مقرر کریں ؟ رسول اللہ نے فرمایا اگر ابوبکر کو امیر بناو گے تو انہیں امین پاو گے دنیا سے بے رغبت اور آخرت کا مشتاق پاو گے، اگر عمر کو امیر بناو گے تو انہیں طاقتور اور امین پاو گے وہ اللہ کی راہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں کرتے، اگر علی علیہ السلام کو امیر بناو گے لیکن میرا خیال ہے کہ تم ایسا نہیں کروگے تو انہیں ہدایت کرنے والا اور ہدایت یافتہ پاو گے جو تمھیں صراط مستقیم پر لے کر چلیں گے۔

تعجب کی بات ہے کہ بعض متعصب اہل سنت علمائ نے اس روایت کو ضعیف کہا ہے حالانکہ اہل سنت کے بڑے اور جلیل القدر علمائ نے اسی روایت کی صحت کا اعلان کیا ہے اور اس روایت کی سند کو بہتر سند قرار دیا ہے کہ جس میں سر فہرست اہل سنت کے مایہ ناز اور مشہور و معروف عالم، علامہ ابن حجر عسقلانی ہے کہ جنہوں نے اسی روایت کی سند کو بہتر سند قرار دیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ

وفی مسند أحمد بسند جید عن علی قال قیل یا رسول الله من تؤمر بعدک قال إن تؤمروا أبا بکر تجدوه أمینا زاهدا فی الدنیا راغبا فی الآخرة وإن تؤمروا عمر تجدوه قویا أمینا لا یخاف فی الله لومة لائم وإن تؤمروا علیا وما أراکم فاعلین تجدوه‌هادیا مهدیا یأخذ بکم الطریق المستقیم

مسند احمد میں ایک بہتر اور جید سند کے ساتھ حضرت علی ع سے روایت ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الاصابہ ج ۴ ص ۴۶۸

روایت سے نتیجہ:

اس روایت سے صاف ظاہر ہے کہ امام علی علیہ السلام تمام صحابہ میں افضل ہے کیونکہ امام علی علیہ السلام وہ ہیں جو ھدایت یافتہ اور ھدایت کرنے والا ہے اور صراط مستقیم پر لے جانے والا ہے ،

اس روایت میں مولا علی علیہ السلام کی خلافت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے صحابہ کو مخاطب کرکے فرمایا ہے کہ میرا خیال ہے کہ تم علی علیہ السلام کو امیر مقرر نہیں کرو گے، یعنی صحابہ کے دل میں مولا علی علیہ السلام کی نسبت بغض و کینہ تھا،

سید ابوعماد حیدری سید ابوعماد حیدری سید ابوعماد حیدری سید ابوعماد حیدری

بازدید : 765
دوشنبه 21 ارديبهشت 1399 زمان : 14:24
  • 1
  • 2
  • 3
  • 4
  • 5

سید ابوعماد حیدری

سوال 1: جب ابوبکر کو شیعہ لوگ خلیفہ ہی نہیں مانتے تو‌‌ان‌سے فدک کا مطالبہ کیوں ؟ فدک کے مطالبے کے لئے ضروری ہے کہ حضرت ابوبکر کو خلیفہ اول مان لیں تو تب فدک کا مطالبہ کریں یا پھر جن کو خلیفہ اول مانتے ہیں انہیں سے فدک کا مطالبہ کریں یعنی مولا علی ع سے؟

اس کا جواب کچھ یوں ہے:

1️ یہ بات بالکل بھی غلط ہے کہ اگر آپ کسی کو اہل نہیں مانتے تو آپ‌‌ان‌سے مطالبہ ہی نہ کریں یعنی کہ اگر کوئی ظالم بادشاہ ہے اس کے پاس میرا حق ھے تو اگر میں‌‌ان‌کو عادل بادشاہ نہیں مانتا تو میں اس سے اپنا حق بھی نہ مانگ سکتا ۔

مثلا آج کل کی مثال میں اگر ہم دیکھیں تو مودی کو ہر پاکستانی ایک ظالم لیڈر کہتا ہے اور خود انڈیا کے لئے بھی اسے ایک مضر انسان سمجھتا ہے، تو کیا پاکستان اس سے کشمیر کا مطالبہ نہ کر ے ؟

کیا کشمیر کے مطالبے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے مودی کو برحق مانا جائے اور پھر کشمیر کا مطالبہ کیا جائے؟

2️ اگر خلیفہ سے مطالبہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ خلیفہ کو برحق ما نا جائے ، تو آپ ذرا تاریخ میں جا کر دیکھا دیں کہ کیا مولا علی ع کو معاویہ نے خلیفہ مان لیا تھا ؟ کیا مولا علی ع کی بیعت کی تھی؟

کیا حضرت عائشہ نے مولا علی ع کو خلیفہ مان لیا تھا؟

تو آپ کا جواب نہیں میں آئے گا ۔

جب حضرت عائشہ و معاویہ نے مولا علی کو خلیفہ ہی نہیں مانا تھا تو پھر قتل عثمان کے قصاص کا مطالبہ کیوں کر رہے تھے ؟

اگر خلیفہ ماننا ضروری ہے تو پھر سب سے زیادہ ظلم حضرت عائشہ اور معاویہ نے کیا ہے کیونکہ یہ خلیفہ نہیں مانتے تھے اور اس کے باوجود انہوں نے نہ صرف عثمان کے خون کے قصاص کا مطالبہ کیا ہے بلکہ حضرت علی ع کے خلاف تلوار اٹھا کے جنگیں برپا کیں ہیں اور ہزاروں لوگ قتل ہوئے ہیں تو اس کا جواب پھر اہل سنتدے دیں؟ اس صورت میں تو خود معاویہ اور حضرت عائشہ کے اوپر بہت سنگین سزا ہونی چاہیے کہ جنھوں نے خلیفہ بھی نہیں مانا اس کے باوجود جا کے مطالبہ بھی کردیا ۔

سوال 2: جب مولا علی ع کو حکومت ملی کیوں واپس نہیں کیا؟

جواب یہ ہے کہ اہل سنتثابت کریں کہ مولا علی علیہ السلام کے پاس کوئی آیا ہے اور فدک کا مطالبہ کیا ہو اور فدک اس کا حق بنتا ہو اور مولا علی نے اس کو فدک نہ دیا ہو؟

جب کہ حضرت ابوبکر کے پاس بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا آئیں تھی اور مطالبہ کیا تھا مگر پھر بھی خلیفہ نے فدک نہیں دیا؟

سب سے پہلی بات تو ہے کہ مولا علی ع نے حضرت عمر اور حضرت ابوبکر کے زمانے میں جاکر‌‌ان‌دونوں سے مطالبہ کیا ہے کہ فدک ہمارا حق ہے ۔ صحیح مسلم میں وہ حدیث موجود ہے، اب حدیث بہت طولانی ہے، میں صرف وہی جملہ بیان کرتا ہوں جہاں پہ حضرت عمر نے کہا ہے کہ حضرت علی ع اور حضرت عباس رض دونوں کو مخاطب کرکے یہ جملہ کہا ہے کہ جب رسول صلى الله علیه و آله وسلم اس دنیا سے رخصت ہوئے تو حضرت ابوبکر نے کہا: انا ولی الرسول اللہ ص، میں رسول ص کا جانشین یا ولی ہوں۔ (اب یہاں سوال پیدا ہوتا ھے کہ یہاں ولی کا مطلب جانشین ہے لیکن من کنت مولا فھذا علی مولا یا من کنت ولی فھذا علی ولی، اہل سنتکے ہاں دونوں روایات موجود ہیں میں ولی کا معنی دوست ہے یہ دوغلی پالیسی اہل سنت کے ہاں ) حضرت ابوبکر نے کہا انا ولی الرسول ص، میں رسول ص کا جانشین ہوں۔ اور تم دونوں آئے، تم اپنی میراث کا مطالبہ کرتے رہے (یعنی) رسول صلى الله علیه و آله وسلم کی میراث کا تم (حضرت عباس) مطالبہ کرتے رہے ، یہ (علی ع) مطالبہ کر رہے تھے اپنی بیوی کی میراث کا، کہ جو انکو اپنے باپ سے ملی۔ اب یہاں یہ بات واضح ہے کہ مولا علی ع حضرت ابوبکر اور حضرت عمر سے مطالبہ کرتے رہے۔ اور حضرت عباس نے بھی مطالبہ کیا ہے۔ اب اگر نبی کی وراثت نہیں ہوتی تو اس صورت میں خود ہی بتا دیں کہ کیوں مولا علی ع نے مطالبہ کیا۔؟ کیا مولا علی ع کو علم نہیں تھا کہ انبیا کی میراث نہیں ہوتی؟

تیسری بات کہ اگر ہم مان بھی لیں کہ حضرت ابوبکر نے جو روایت بیان کی ہے کہ ہمارا ورثہ نہیں ہے ہم جو کچھ چھوڑ دیتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے ۔ تو اس صورت میں تو یہ ماننا پڑے گا کہ یه حدیث نہ حضرت زہرا ع کو معلوم ہے نہ مولا علی ع کو معلوم ہے نہ حضرت عباس کو معلوم ہے اور نہ رسول صلى الله علیه و آله وسلم کی ازواج کو معلوم ہے کیونکہ ازواج رسول ص بھی حضرت عثمان کے دور میں میراث کا مطالبہ کرتی رہیں

حدیث جن کو بیان کرنی چاہیے وہاں بیان نہیں ہوئی ہے۔ بیان یہاں کرنی چاہیے تھی کہ رسول خدا ص اپنی بیٹی کو بتاتے کہ میری کوئی میراث نہیں ہے۔ مگر رسول ص نے اپنی بیٹی کو نہیں بتایا لیکن تعجب ہے حضرت ابوبکر کو بتایا ہے۔ اب فرض کریں کہ ایک باپ اپنی میراث کے بارے میں گاوں کے کسی بڑے بزرگ کو بتا دیں مگر اپنی اولاد کو نہ بتائے۔ حالانکہ میراث پہ اولاد کا حق ہے اولاد کو میراث کی وصیت ہوتی ہے

اب یہ بات ہی کافی ہے کہ یہ حدیث حضرت ابوبکر کی طرف سے ہے نا کہ رسول خدا ص نے بیان فرمائی ہے ۔

ایک اور نکتہ یہ ہے کہ اگر ہم مان لیں کہ یہ حدیث صحیح ہے اور یہ حدیث حضرت ابوبکر نے سیدہ فاطمہ ع کے سامنے بیان کی تو اس صورت میں تو حضرت زہرا ع کو غصہ نہیں ہونا چاہیے تھا اور جناب زہرا ع کو شکریہ ادا کرنا چاہیے تھا۔ اگر واقعا یہ رسول اللہ کی حدیث ہوتی تو حضرت زہرا ع ضرور شکریہ ادا کرتیں کہ اے ابوبکر آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے مجھے اپنے بابا کی حدیث یاد دلائی ہے۔ لیکن بخاری اور دیگر کتب اہل سنتمیں روایت ہے کہ حضرت زہرا ع غضب ناک ہوئیں۔ یعنی اس کا مطلب ہوا کہ یہ حدیث رسول ص کی ہے ہی نہیں جو کہہ رہے ہیں کہ رسول ص کا کوئی ورثہ نہیں ہے ۔ جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہے۔

پہلی بات یہ ھے کہ اس حدیث کا نہ جناب زہرا ع کو پتا ہے نا مولا علی ع کو پتا ہے نا حضرت عباس کو پتا ہے۔ دوسری بات ، اگر ہم مان لیں کہ‌‌ان‌کو حدیث کے بارے میں معلوم نہیں تھا تو پھر حدیث سن کر غصہ کیوں ہو جاتی ہیں ؟ غصہ ہو گئیں اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ حدیث رسول ص کی ہے ہی نہیں ۔ اور غصہ بھی ایسے ہوئیں کہ آخری دم تک کلام نہیں کیا اور جب فوت ہو گئیں تو حضرت ابوبکر کو جنازہ کی خبر بھی نہیں دی اور رات کو دفنا دیا یہ بھی بخاری میں الفاظ موجود ہیں ۔

اب‌‌ان‌ساری باتوں کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیث جھوٹ معلوم ہوتی ہے جو رسول ص سے منسوب ہے۔

اگر ہم مان بھی لیں کہ مولا علی ع حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے پاس نہیں گئے ہیں ، کوئی مطالبہ نہیں کیا ، پھر بھی مولا علی ع پہ کوئی سوال نہیں آتا۔ کہ مولا علی ع نے فدک کیوں نہیں لیا۔ کیونکہ اہل سنتخود مانتے ہیں ، اب میں کتاب کا حوالہ دیتا ہوں کتاب من القلب الی القلب اہل سنت عالم عثمان بن محمد الخمیس کی، جو اہل سنت کے عالم ہیں۔ وہ خود لکھتے ہیں کہ وفات نبی ص کے بعد حضرت ابوبکر فدک کی مدیریت کرتے تھے، پھر حضرت عمر اپنی خلافت میں، حضرت عمر نے مولا علی ع کو یہ مدیریت دی تاکہ اسکی مدیریت کریں۔ پھر مولا علی ع کے بعد امام حسین ع، پھر اسکے بعد امام حسن ع کے بیٹے حسن مثنی کو دے دیا گیا، پھر علی بن حسین ع کو........ اہل سنتکے اس عالم نے مانا ہے کہ حضرت عمر نے امام علی ع کو فدک دیا ہے۔

اب ہمارا سوال آپ کے اوپر بنتا ہے کہ جب حضرت عمر نے دیا تو حضرت ابوبکر نے کیوں نہیں دیا، اور حضرت ابوبکر نے انکار کیا کہ انکو فدک نہیں دینا چاہیے تو حضرت عمر نے کیوں دے دیا؟

کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے کچھ کام اچھے کیے ۔ ایک یہ کہ امام علی ع پہ جو منبروں پر سب و شتم کیا جاتا تھا جو معاویہ نے سنت قائم کی تھی، اس کو ختم کیا۔ اور دوسرا یہ کہ فدک کو واپس اہل بیت ع کی طرف لوٹا دیا۔ اب سوال ہے کہ عمر بن عبدالعزیز نے واپس کیا اور عمر بن خطاب نے لیا ہے، تو اس میں ایک عمر نے تو غلط کیا ھے یا عمر بن خطاب نے یا پھر عمر بن عبدالعزیز نے، یہ بات تو نہ ہوئی کہ انھوں نے لے لیا اچھا کیا ، اور انھوں نے واپس کردیا ، اچھا کیا۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ مولا علی ع اور معاویہ کی جنگ میں دونوں صحیح تھے۔

ایک بات کریں تاکہ پتا چلے کہ آپکے پاس میزان اور معیار کیا ہے؟

تیسرا سوال یہ کیا گیا ہے کہ وراثت تو ازواج کی بھی ہے، صرف سیدہ زہرا ع کی نہیں تھی تو کیوں ازواج کی وراثت کی بات نہیں کی جاتی؟

یہ تو اہل سنتنے موقع دیا کہ ہم اپنی اس بات کو واضح کریں، اگر رسول خدا ص کی حدیث صحیح ہے اور رسول صلى الله علیه و آله وسلم جو کچھ چھوڑ دیتے ہیں وہ صدقہ ہے تو رسول صلى الله علیه و آله وسلم نے صرف فدک نہیں چھوڑا ہے ، رسول ص نے اپنا گھر بھی چھوڑا ہے۔ کیا حضرت ابوبکر نے ازواج رسول ص کو گھر سے نکال دیا؟ کہ یہ صدقہ ہے اس پہ سارے مسلمانوں کا حق ہے۔ تم لوگ نکل جاؤ. اور اپنے باپ کے گھر چلے جاؤ. یہ گھر اب عامة المسلمین کے فائدہ کے لئے مقرر کیا جائے گا ۔ کیا یہ حضرت ابو بکر و حضرت عمر نے کیا؟

یعنی آپ کے ہاں وارثت کی جو حدیث ہے وہ صرف حضرت زہرا ع کے لئے ہے فدک لینے کے لئے۔ جبکہ دوسری طرف اپنی بیٹیاں ہیں وہاں تو کوئی بات نہیں ہوئی۔ وہاں تو کچھ بھی نہیں ہے۔ تو ہمارا اعتراض تو‌‌ان‌پر یہی بنتا ھے کہ اگر یہ حدیث درست ہے تو پھر ازواج گھر میں کیونکر رہیں۔

ایک نکتہ یہ ہے کہ جو حدیث حضرت ابوبکر نے پیش کی، یہ قرآن سے ٹکراتی ہے۔ قرآن الکریم میں باقاعدہ انبیاء کے لئے میراث کی بات ہوئی ہے اور حدیث میں کہہ رہے ہیں کہ انبیاء کی کوئی وراثت ہے ہی نہیں۔ اب یہ حدیث قرآن سے ٹکرا رہی ھے تو پھر اس کی کیا حیثیت ہو گی؟ قرآن میں واضح واضح لکھا ھے کہ انبیاء کی میراث ہے۔ جب کہ یہ کہتے ہیں کہ میراث نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ رسول ص کی حدیث نہیں ہے بلکہ بعد میں گھڑا گیا ہے اور اس طرح موضوع حدیث کی ابتدا حضرت ابوبکر سے ہوئی ۔

بازدید : 716
چهارشنبه 9 ارديبهشت 1399 زمان : 7:23
  • 1
  • 2
  • 3
  • 4
  • 5

سید ابوعماد حیدری

کیا کوئی شیعہ مجھے اپنی بہن دے گا تاکہ میں اس کے ساتھ متعہ کروں؟

👈 { وھابی کا سوال}

بافھم سنی جوانوں سے معذرت

1⃣ پہلا جواب : اول جواب تو یہ ہے کہ شیعہ کے ہاں بھائی کا بہن پر ولایت حاصل نہیں ، یعنی کسی شیعہ کا حق نہیں کہ وہ اپنی بہن کی شادی میں اپنی من مانی کرے جب کوئی شیعہ، بہن کے پرمننٹ نکاح میں ولایت نہیں رکھتا تو ٹیمپریری نکاح میں کہاں سے حق رکھے گا۔

2⃣ دوسرا جواب: جواب دوم منہ توڑ جواب ہے کہ سنی جب بیوی کو طلاق دے اور ایک ہی وقت میں تین دفعہ طلاق کہے تو اس کی بیوی اس پر طلاق ہوجاتی ہے اور اسے دوبارہ شادی کرنے کے لئے 👈کسی سے حلالہ کرنا پڑے گا یعنی وہ عورت کسی اور سے شادی کرکے ایک رات اس شخص کے پاس رہ کر { دخول کا عمل شرط ہے} دوسرے دن طلاق لے کر پھر وہ شخص اپنی سابقہ بیوی سے نکاح کرسکے گا ، تو وھابی کی خدمت میں عرض ہے 👈 کہ کیا وہ تیار ہے کہ وہ اپنی بیوی کو حلالہ کرنے کے لئے کسی شیعہ کی خدمت حاصل کریں ؟

3⃣ تیسرا جواب : جواب سوم یہ ہے کہ سنیوں کے ہاں اگر ایک شخص ایک نامحرم عورت کے پاس رہنا چاھے اور اس کے ساتھ ایسے تعلقات رکھے کہ وہ زنا میں مبتلا نہ ہوجائے تو اسے اس عورت کا دودھ پینا چاھیے تاکہ وہ اس عورت کا محرم بن جائے ، یہ بات سنیوں کی کتاب صحیح مسلم اور سنن ابی داود میں مفصل ذکر ہے تو 👈 کیا کوئی سنی یا وھابی اپنی بھن کو کسی شیعہ کے پاس بھیجے گا تاکہ وہ شیعہ وھابی یا سنی کی بھن کا دودھ پی لے اور محرم بن جائے؟

👈🔴جیسا کہ یہ کام رسول اللہ کی ایک زوجہ کرتی تھی جو شخص اس کے پاس آنا چاھتا تھا تو اس کو یا خود دودھ پلاتی تھی یا اپنی بہن کے پاس بھیج کر دودھ پلواتی تھی اور پھر اس کو محرم سمجھتی تھی

بازدید : 1429
چهارشنبه 9 ارديبهشت 1399 زمان : 7:23
  • 1
  • 2
  • 3
  • 4
  • 5

سید ابوعماد حیدری

بالغ آدمی‌کو دودھ پلانا۔ حضرت عائشہ کا فتوی

تمام اہل سنت حق کے متلاشی کو دعوت دی جاتی ہے کہ مندرجہ ذیل مطالب غیر متعصب ہوکر پڑھ لیں ،‌‌ان‌مطالب میں ہم نے اپنی کتابوں سے ایک حوالہ بھی نہیں دیا ہے بلکہ تمام کے تمام حوالے اہل سنت کی کتابوں سے ہیں کہ جن کی تصحیح خود اہل سنت علمائ نے کی ہے،

بالغ آدمی‌کو دودھ پلانے کو رضاعۃ الکبیر کہتے ہیں ، رضاعۃ الکبیر کے حوالے سے

حضرت عائشہ کہ جن سے اہل سنت نے نصف دین لیا ہے نے ایک ایسا فتوی دیا ہے کہ جو رہتی دنیا تک حضرت عائشہ کی شخصیت کو زیر سوال لاتا ہے اور وہ فتوی یہ ہے کہ جب بھی حضرت عائشہ چاھتی کہ اس کے پاس کوئی آجائے اور اس کے ساتھ بیٹھ کر گفتگو کرے بی بی عائشہ حکم اپنی بھانجیوں کو یا بھتیجیوں کو حکم فرماتی تھی کہ اس شخص کو دودھ پلائے تاکہ وہ شخص حضرت عائشہ کا محرم بن جائے ۔

ہم ذیل میں کچھ شواھد پیش کرتے ہیں

ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں

فکانت عائشة تأمر بنات اخوتها وبنات اخواتها أن یرضعن من احبت أن یدخل علیها ویراها وأن کان کبیرا خمس رضعات ثم یدخل علیها وإسناده صحیح

حضرت عائشہ اپنی بھانجیوں اور بھتیجیوں کو حکم کرتی تھی کہ وہ اس شخص کو دودھ پلایا جس کے حضرت عائشہ اپنے پاس بلانا چاھتی تھی اور اس کو دیکھنا چاھتی تھی ۔

ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں کہ اس حدیث ک ی سند درست ہے.

فتح الباری شرح صحیح البخاری جزء 9 ص 149 الناشر : دار المعرفة - بیروت ، 1379

اہل سنت جان چھڑانے کے لئے یہ کہتے ہیں کہ دودھ نکال کر ایک برتن میں ڈال دیا جاتا تھا اور اس دودھ کو کسی مطلوب شخص کو برتن سے پلایا جاتا تھا۔

پس ضروری ہے کہ ہم رضاع کا معنی کریں

رضاع کا معنی اہل سنت فقھاء نے کچھ یوں کیا ہے کہ

الرضاع لغة اسم لمصی الثدی و الشرب لبنه

رضاع لغت میں عورت کے پستان کو منہ میں لے کر دودھ پینے کو کہتے ہیں ۔

الاغناء فی حل الفاظ ابی شجاع ، ج 2 ، ص 136 ، چاپ دار المعرفه بیروت

بکری دمیاطی ، اعانه الطالبین ، ج 3 ، ص 329

زکریای انصاری ، فتح الوهاب ، ج 2 ، ص 194

یعنی اگر کوئی چاھتا کہ حضرت عائشہ کے پاس جاتا تو وہ حضرت عائشہ کی بھانجی یا بھتیجی کا پستان منہ میں لے کر دودھ پیتا تھا اور پھر حضرت عائشہ کے پاس جاتا تھا۔

حضرت عائشہ کے دلائل:

حضرت عائشہ نے اس کام کے لئے قرآن و حدیث دونوں سے دلائل لائی ۔

قرآن سے دلیل : چونکہ قرآن میں کوئی ایسی آیت نہیں کہ جو بڑے آدمی‌کو کسی نامحرم عورت کا دودھ پلانے کی تعلیم دے اور نہ حضرت عائشہ اپنی طرف سے کوئی آیت بنا سکی کیونکہ قرآن کی آیات کی طرح کوئی شخص بھی تا قیامت کوئی آیت بنا نہیں سکتا لہذا حضرت عائشہ نے کہا کہ قرآن میں آیت تھی کہ جس میں یہ تعلیم تھی کہ ایک بالغ شخص کسی اجنبی عورت کا دودھ پی سکتا ہے لیکن میری بکری نے وہ آیات کھالی ہے ۔

سنن ابی ماجہ باب رضاع الکبیر جلد ۶ ص ۷۲

سنت سے دلیل : یہاں حضرت عائشہ نے ایک حدیث گھڑ لی ہے اور وہ حدیث یہ ہے کہ

2636 – حَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ وَابْنُ أَبِی عُمَرَ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَةَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِیهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ

جَاءَتْ سَهْلَةُ بِنْتُ سُهَیْلٍ إِلَى النَّبِیِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ یَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّی أَرَى فِی وَجْهِ أَبِی حُذَیْفَةَ مِنْ دُخُولِ سَالِمٍ وَهُوَ حَلِیفُهُ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَرْضِعِیهِ قَالَتْ وَکَیْفَ أُرْضِعُهُ وَهُوَ رَجُلٌ کَبِیرٌ فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ قَدْ عَلِمْتُ أَنَّهُ رَجُلٌ کَبِیرٌ

حدیث کچھ یوں ہے کہ ابوحذیفہ کا منہ بولا بیٹا ابوحذیفہ کے گھر میں رہتا تھا اور سب لوگ اس کو ابوحذیفہ کا بیٹا سمجھنے لگے تھے جب اسلام کا حکم آیا کہ منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹا نہیں ہوتا تو ابوحذیفہ نے اپنے منہ بولے بیٹے سالم کو گھر میں رکھنا ناپسند فرمایا ۔ ابوحذیفہ کی بیوی سھلہ بنے سھیل رسول اللہ کے پاس آئی اور کہا کہ یا رسول اللہ جب بھی سالم ہمارے پاس آتا ہے تو میں ابو حذیفہ کے چہرے پر ناراضگی کے اثرات دیکھتی ہوں ، تو رسول اللہ نے کہا کہ جاو تم سالم کو اپنا دودھ پلاو ، سھلہ نے کہا کہ یا رسول اللہ میں کیسے دودھ پلاوں وہ تو بڑا آدمی‌ہے ۔ رسول اللہ مسکرئے اور کہا کہ مجھے پتہ ہے کہ وہ بڑا آدمی‌ہے۔

یہ واقعہ کاملا جھوٹ ہے ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں ہوا ہے بس حضرت عائشہ نے یہ حدیث اس لئے گھڑی تاکہ اجنبی لوگوں کا‌‌ان‌کے پاس آنا جانا لگا رہے ۔

اجنبیوں کو دودھ یا خود حضرت عائشہ پلاتی تھی ۔ جیسا کہ

فتح المنعم شرح صحیح مسلم {جلد ۵ ص ۶۲۲ چاپ دار الشروق} میں لکھا ہے

اور بھانجیوں اور بھتیجیوں کو بھی حکم دیتی تھی کہ وہ اجنبیوں کو دودھ پلائے۔ یہ بات مندرجہ ذیل کتابوں میں ہے

صحیح سنن ابی داود جلد ۶ ص ۳۰۲

مسند احمد بن حنبل ص ۴۳ ص ۳۵۲

کشف اللثام شرح عمدۃ الاحکام جلد۶ ص ۳۱

فوائد الحنائی او الحنائیات جلد ۱ ص ۶۲۳، ۶۲۴، ۶۲۵

مختصر صحیح البخاری جلد۳ ص ۳۵۳

سنن ابی داود جلد ۳ ص ۴۰۳، ۴۰۴

مندرجہ بالا تمام روایات پر اہل سنت علمائ نے تصحیح کا حکم لگایا ہے،

سید ابوعماد حیدری سید ابوعماد حیدری سید ابوعماد حیدری سید ابوعماد حیدری سید ابوعماد حیدری سید ابوعماد حیدری سید ابوعماد حیدری

بازدید : 898
چهارشنبه 9 ارديبهشت 1399 زمان : 7:23
  • 1
  • 2
  • 3
  • 4
  • 5

سید ابوعماد حیدری

نواصب کا امام شیخ ابن تیمیہ لکھتے ہیں۔کہ

ان کثیرا من الصحابة والتابعین کانوا یبغضونه و یسبونه و یقاتلونه

صحابہ اور تابعین کی ایک بڑی تعداد حضرت علی سے بغض کرتی تھی‌‌ان‌کو گالیاں دیتی تھی اور‌‌ان‌سے جنگ لڑتی تھی۔

منھاج السنة۔ ج 7 ص 137

صغری : صحابہ کی ایک بڑی تعداد علی سے بغض کرنے والے۔

کبری : نبی کا فرمان۔ علی سے بغض کرنے والا منافق۔

*نتیجہ خود ہی لے لیں۔*

سید ابوعماد حیدری

سید ابوعماد حیدری

بازدید : 1059
شنبه 8 فروردين 1399 زمان : 2:43
  • 1
  • 2
  • 3
  • 4
  • 5

سید ابوعماد حیدری

معاویہ بن ابی سفیان ،متقدمین کی نظر میں

معاویہ ، مولا علی علیہ السلام کی نظر میں :

امام علی علیہ السلام نے فرمایاکہ

وخلاف معاویة الذی لم یجعل الله عز و جل له سابقة فی الدین ولا سلف صدق فی الإسلام طلیق ابن طلیق حزب من هذه الأحزاب لم یزل لله عز و جل ولرسوله صلى الله علیه و سلم وللمسلمین عدوا هو وأبوه حتى دخلا فی الإ سلام کارهین

وہ معاویہ میرا مخالف ہے کہ جس کو اللہ تبارک و تعالی نے دین اسلام میں سبقت لانے والوں میں سے قرار نہیں دیا ہے طلیق بن طلیق اور احزاب میں حزب ۔ معاویہ اور اس کا باپ {ابوسفیان} اللہ تبارک و تعالی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ اور مسلمانوں کے دشمن رہے یہاں تک کہ اسلام میں مجبور ہوکر داخل ہوئے۔

اس روایت میں طلیق کا لفظ استعمال ہوا ہے کہ جس کا جمع طلقاء ہے ۔ طلقاء کا معنی لسان العرب میں بیان ہوا ہے کہ

و الطُّلَقاء: الذین ادخلوا فی الإِسلام کرهاً

طلقاء‌‌ان‌کو کہا جاتا ہے کہ جو اسلام میں مجبور ہوکر داخل ہوئے تھے .

إبن أبی الحدید معتزلی لکھتے ہیں کہ

لما نظر علی علیه السلام إلى رایات معاویة وأهل الشام ، قال : والذی فلق الحبة ، وبرأ النسمة ، ما أسلموا ولکن استسلموا ، وأسروا الکفر ؛ فلما وجدوا علیه أعواناً ، رجعوا إلى عداوتهم لنا

جب امام علی علیہ السلام نے معاویہ اور اہل شام کے پرچم دیکھے تو فرمایا

خدا کی قسم جس نے دانہ کو شگافتہ کیا اور جاندار اشیاء کو پیدا کیا یہ لوگ کبھی اسلام نہیں لائے لیکن تسلیم ہوئے اور کفر کو چھپا رکھا ، جب‌‌ان‌کو ساتھی مل گئے تو ہماری عداوت پر لوٹ گئے۔

وقعۃ صفین میں لکھا ہے کہ

فقیل لعلی حین أراد أن یکتب الکتاب بینه وبین معاویة وأهل الشام: أتقر أنهم مؤمنون مسلمون ؟ فقال على: ما أقر لمعاویة ولا لأصحابه أنهم مؤمنون ولا مسلمون،

مولا علی نے جب معاویہ کو خط لکھ لکھنے کا ارادہ کیا تو پوچھا گیا کہ کیا آپ اقرار کرتے ہیں کہ معاویہ اور اھل شام مومنین اور مسلمان ہیں تو مولا علی نے کہا کہ میں اقرار نہیں کرتا کہ معاویہ اور اس کے ساتھی مومنین اور مسلمان ہیں۔

تاریخ طبری میں ہے کہ جب عمروبن عاص نے مصر پر لشکر کشی کرنا چاھا تو مصر کے والی محمد بن ابی بکر نے مولا علی علیہ السلام کو مدد کے لئے خط لکھا کہ جس کے جواب میں مولا علی علیہ السلام نے خط لکھا جس میں مولا علی نے فرمایا کہ

وقد قرأت کتاب الفاجر ابن الفاجر معاویة والفاجر ابن الفاجر عمرو المتحابین فی عمل المعصیة والمتوافقین المرتشیین فی الحکومة المنکرین فی الدنیا قد استمتعوا بخلاقهم کما استمتع الذین من قبلهم بخلاقهم فلا یهلک إرعادهما وإبراقهما

میں نے فاجر بن فاجر معاویہ اور فاجر بن فاجر عمروعاص کا خط پڑھا یہ دونوں خدا کی نافرمانی کو محبوب رکھتے ہیں اور حکومت میں رشوت لینے والوں کو اپنے ساتھ ملاتے ہیں اور دنیا میں منکر کام کرتے ہیں انہوں نے اپنی فطرت کے مطابق دنیا سے فائدہ حاصل کیا جیسا کہ‌‌ان‌سے پہلے لوگوں نے بھی اپنی فطرت کے مطابق اپنا فائدہ حاصل کیا تھا تم‌‌ان‌کی دھمکیوں اور‌‌ان‌کی لالچ سے اپنے آپ کو ھلاک نہ کرنا۔

۲۔ معاویہ، حسن بصری کی نظر میں:

معاویہ کے بارے میں امام حسن بصری کا قول طبری نے نقل کیا ہے

أن الحسن کان یقول : أربع خصال کن فی معاویة و لو لم یکن فیه منهن إلا واحدة لکانت موبقة :

انتزاؤه على هذه الأمة بالسفهاء حتى ابتزها أمرها بغیر مشورة و فیهم بقایا الصحابة و ذوو الفضیلة ،

و استخلافه ابنه بعده سکیرا خمیرا یلبس الحریر و یضرب الطنابیر ،

و ادعاؤه زیادا ، و قد قال رسول الله : الولد للفراش و للعاهر الحجر ،

و قتله حجرا و أصحابه ویل له من حجر و أصحابه ، ویل له من حجر و أصحا به

حسن بصری کہا کرتے تھے کہ معاویہ میں چار صفات ایسی تھیں کہ اگر‌‌ان‌میں سے اس میں ایک بھی ہوتی تو بھی تباہی کے لئے کافی تھی۔
1:- امت کے دنیا طلب جہال کو ساتھ ملاکر اقتدار پر قبضہ کیا جبکہ اس وقت صاحب علم و فضل صحابہ موجود تھے ۔
2:- اپنے شرابی بیٹے یزید کو ولی عہد بنایا جو کہ ریشم پہنتا تھا اور طنبور بجاتا تھا ۔
3:- زیاد کو اپنا بھائی بنایا ۔ جب کہ رسول خدا کا فرمان ہے کہ لڑکا اس کا ہے جس کے بستر پر پیدا ہو اور زانی کے لئے پتھر ہیں ۔
4:- حجر بن عدی اور‌‌ان‌کے ساتھیوں کو ناحق قتل کیا۔

بلاذری انساب الأشراف میں امام حسن بصری سے رسول اللہ کی حدیث نقل کرتے ہیں کہ
حَدَّثَنَا یُوسُفُ بْنُ مُوسَى، وَأَبُو مُوسَى إِسْحَاقُ الْفَرْوِیُّ، قَالا: حَدَّثَنَا جَرِیرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِیدِ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ، وَالأَعْمَشُ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ (ص): " إِذَا رَأَیْتُمْ مُعَاوِیَةَ عَلَى مِنْبَرِی فَاقْتُلُوهُ ". فَتَرَکُوا أَمْرَهُ فَلَمْ یُفْلِحُوا وَلَمْ یَنْجَحُوا .
حسن بصری سے نقل ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ : «کہ جب معاویہ کو میرے منبر پر دیکھو تو اسے قتل کردو» لوگوں نے رسول اللہ کے اس حکم پر عمل نہیں کیا اسی لئےناکام رہے اور نجات نہ پا سکے .

۳۔معاویہ،عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی نظر میں:

جناب حضرت عمار بن یاسر سے ذیل کی روایت مختلف سندوں سے نقل کی گئی ہے کہ

قال واللہ ما اسلموا ولکن استسلموا و اسروا الکفر

عماربن یاسر فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم معاویہ اور اسکے ہمکاروں نے اسلام نہیں لایا تھا بلکہ تسلیم ہوئے تھے اور کفر کو چھپا رکھا تھا ۔

یہی حدیث امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے بھی نقل ہے جو کہ اسی کتاب کے صفحہ ۸ پر بیان ہوئی ہے۔ یہ حدیث بالکل انہیں الفاظ کے ساتھ سعید بن زید بن عمرو بن نفیل سے بھی نقل ہے کہ جب مروان نے مدینہ میں یزید کی بیعت کے لئے سعید کو طلب کیا تو سعید نے یہی کہا کہ أمرنی مروان أن أبایع لقوم ضربتهم بسیفی حتى أسلموا ولکن استسلموا مجھے مروان نے حکم دیا ہے کہ میں اس قوم کی بیعت کروں جن سے میں اسلام کی خاطر بہت لڑا ہوں یہاں تک کہ انہوں نے اسلام نہیں لایا بلکہ تسلیم ہوئے۔

عمار بن یاسر جب صفین میں مقابلے کے لئے نکلا تو مقابلے کے لئے عمروبن عاص آیا کہ جس نے معاویہ کو حکومت دلوائی تھی اور دومۃ الجندل میں معاویہ کے خلافت کا اعلان کیا تھا اور صفین میں معاویہ کی جان بچانے کے لئے قرآن کو نیزوں پر بلند کرنے کا حکم دیا تھا۔ جب عمار یاسر نے مقابلے میں آنے والے عمروبن عاص کو دیکھا تو لوگوں کو مخاطب کرکے کہا کہ

یقول یا أهل العراق أتریدون أن تنظروا إلى من عادى الله ورسوله وجاهدهما وبغى على المسلمین وظاهر المشرکین فلما رأى الله عز و جل یعز دینه ویظهر رسوله أتى النبی صلى الله علیه و سلم فأسلم وهو فیما نرى راهب غیر راغب ثم قبض الله عز و جل رسوله صلى الله علیه و سلم فوالله إن زال بعده معروفا بعداوة المسلم وهوادة المجرم فاثبتوا له وقاتلوه فإنه یطفئ نور الله ویظاهر أعداء الله عز و جل

کہ اے اھل عراق کیا تم اس شخص کو نہیں دیکھتے کہ جس نے اللہ اور اس کے رسول کی دشمنی کی اور اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ کی اور مسلمانوں کے مخالف رہا اور مشرکین کا مددگار رہا ۔ لیکن جب اس نے دیکھا کہ اللہ نے اپنے دین کو غالب فرمایا ہے اور اپنے رسول کی مدد کی ہے تو اس نے اسلام قبول کیا ۔ ہمارے نزدیک اس کا اسلام رغبت و شوق سے نہیں تھا بلکہ خوف کی وجہ سے اسلام لایا تھا پھر اللہ نے اپنے رسول کو ہم سے لے لیا تو حضور کے بعد اللہ کی قسم ہمیشہ یہ شخص مسلمانوں کی عداوت اور مجرموں کی ہمدردی میں مصروف رہا اس کے مقابلے میں ثابت قدم رہو اور اس سے لڑو کیونکہ یہ شخص اللہ کے نور کو بجھاتا ہے اور اللہ کے دشمنوں کی مدد کرتا ہے۔

۴۔معاویہ ،محمد بن ابی بکر کی نظر میں:

محمد بن ابی بکر کا خط معاویہ کے نام بہت مشہور ہے کہ جس میں محمد بن ابی بکر نے لکھا ہے

انت اللعین بن اللعین لم تزل انت و ابوک تبغیان لرسول ال له الغوایل و ت جه دان فی اطفاء نور ال له و تجمعان علی ذالک المجموع و تبذلان ف یه المال ۔۔۔ و علی ذالک مات ابوک ۔

اے ملعون اور ملعون کے بیٹے تو اور تیرا باپ ابھی بھی رسول اللہ سے بغاوت کر چکے ہو اور اللہ کے نور کو بجھانے کی کوشش کرتے ہو اور تم اور تمھارے باپ نے ایک گروہ کو اس پر جمع کیا ہے اور مال خرچ کرتے ہو ۔۔۔۔ اور تمھارا باپ اسی پر مرا ۔

معاویہ نے محمد بن ابی بکر کو خط لکھا تھا جس کے جواب میں محمد بن ابی بکر نے خط لکھ کر کہا کہ

أما بعد فقد أتانی کتابک تذکرنی من أمر عثمان أمرا لا أعتذر إلیک منه وتأمرنی بالتنحی عنک کأنک لی ناصح وتخوفنی المثلة کأنک شفیق وأنا أرجو أن تکون لی الدائرة علیکم فأجتاحکم فی الوقعة وإن تؤتوا النصر ویکن لکم الأمر فی الدنیا فکم لعمری من ظالم قد نصرتم وکم من مؤمن قتلتم ومثلتم به وإلى الله مصیرکم ومصیرهم وإلى الله مرد الأمور وهو أرحم الراحمین والله المستعان على ما تصفون والسلام

اما بعد تمھارا خط مجھے ملا جس میں تم نے عثمان کے معاملہ کا ذکر کیا ہے میں عثمان کے قتل کا تم سے کوئی عذر نہیں کرتا تم نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمھارے مقابلے سے گریز کروں گویا تم مجھے نصیحت کرنا چاھتے ہو اور تم نے مجھے مثلہ کرنے سے خوف دلایا ہے گویا تم مجھ پر بہت مہربان ہو میری تو آرزو ہے کہ میں تجھ پر لشکر کشی کروں اور تمھیں مصیبتوں میں مبتلا کروں اگر چہ تمھاری کتنی ہی امداد نہ کی جائے اور پوری دنیا میں تمھاری حکومت ہی کیوں نہ ہو میری عمر کی قسم کتنے ظالم لوگوں کی تم نے مدد کی ہے اور کنتے مومنوں کو تم نے قتل کیا ہے اور مثلہ کیا ہے اور اللہ ہی کے پا س تم بھی لوٹ کر جاوگے اور یہ لوگ بھی لوٹ کر جائیں گے وہ ارحم راحمین ہے اور جو کچھ تم کہتے ہو‌‌ان‌پر اللہ ہی سے مدد طلب کی جاسکتی ہے ۔والسلام

۱۰۔معاویہ احمد بن حنبل کی نظر میں:

احمد بن حنبل کے بیٹے عبداللہ سے روایت ہے کہ

کہ میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ آپ علی علیہ السلام اور معاویہ کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟

تو احمد بن حنبل نے جواب دیا کہ

اعلم‌‌ان‌علیا کثیر الاعداء ففتش لہ اعداءہ عیبا فلم یجدوا فجاءوا الی رجل قد حاربہ و قاتلہ فوضعوا لہ فضائل

اے میرے بیٹے میں جانتا ہوں کہ علی کے دشمن زیادہ تھے‌‌ان‌دشمنوں نے حضرت علی میں عیب ڈھونڈنا شروع کئے لیکن حضرت علی میں کوئی عیب نہیں ڈھونڈا { چونکہ مولا علی میں کوئی عیب ہے ہی نہیں } تو انھوں نے اس شخص کے فضائل گڑھے جو حضرت علی سے لڑا تھا اور جنگ کی تھی۔{یعنی معاویہ کے فضائل بنائے}

اسی روایت کو جناب سیوطی نے بھی انہیں الفاظ کے ساتھ کتاب تاریخ الخلفاء میں نقل کی ہے۔

۵۔معاویہ، امام نسائی کی نظر میں :

مورخین نے لکھا ہے کہ محدث کبیر صاحب السنن نسائی کہ جو اھل سنت کےچھ مشہور کتابوں میں سے ایک ہے۔ نے اپنی آخری عمر میں مصر کو چھوڑ کر دمشق چلے گئے جناب نسائی نے جب اھل شام کی علی دشمنی دیکھی تو اس نے ایک کتاب " خصائص علی رضی اللہ عنہ " مولا علی علیہ السلا م کے فضائل پر لکھی اس نیت سے تاکہ اھل شام علی دشمنی چھوڑ دےاور راہ حق کی طرف جو کہ مولا علی سے محبت کا راستہ ہے کی طرف آجائے اور پھر اسی کتاب سے مسجد میں درس دینا شروع کیا اور لوگوں کی اصلاح کے لئے مسجد میں لوگوں کو مولا علی کے فضائل بیان کرنا شروع کیا تو تو ایک شخص نے امام نسائی سے معاویہ کے فضائل کے بارے میں پوچھا ، انہوں نے جواب دیاکہ

ما اعرف لہ فضیلہ الا لا اشبع اللہ بطنک

میں معاویہ کے بارے میں کچھ نہیں جانتا مگر یہ ایک حدیث جو کہ رسول اللہ کی ہے ، کہ معاویہ کا پیٹ بھر نہ جائے،

تو اھل شام نے نسائی پر حملہ کیا اور اس کو مسجد سے زخمی‌حالت میں نکالا ، تو نسائی نے کہا کہ مجھے مکہ لے چلو اور آخرکار مکہ میں ہی فوت ہوئے۔

فتح الباری فی شرح البخاری میں علامہ ابن حجر عسقلانی نے ذکر کیا ہے کہ امام نسائی کے استاد اسحاق بن راھویہ معاویہ کے کسی ایک فضیلت کا قائل بھی نہیں تھا اور امام نسائی بھی اپنے استاد والا نظریہ رکھتے تھے۔

۷۔معاویہ ، امام اعمش کی نظر میں :

سلیمان بن مہران اعمش اھل سنت کے ہاں انتہائی قابل قبول ہے اور جناب ذھبی نے اپنی کتاب سیر اعلام النبلاء میں‌‌ان‌کو امام اور شیخ الاسلام کے القاب دئیے ہیں

انساب الاشراف میں جناب بلاذری لکھتے ہیں کہ

ذکر معاویة عند الأعمش فقالوا: کان حلیماً، فقالالأعمش : کیف یکون حلیماً وقد قاتل علیاً وطلب زعم بدم عثمان من لم یقتله، وما هو ودم عثمان، وغیره کان أولى بعثمان منه؟

سلیمان بن مہران اعمش کے ہاں معاویہ کا تذکرہ ہوا اور لوگوں نے کہا کہ معاویہ حلیم {بردبار} تھا تو اعمش نے کہا کہ وہ کیسے حلیم ہے حالانکہ وہ حضرت علی سے لڑا ہے اور عثمان کے خون کا بدلہ مولا علی سے طلب کرتا تھا جس نے قتل ہی نہیں کیا ہے { اور نہ قتل میں شریک ہے} اور پھر معاویہ کا عثمان کے خون سے کیا لینا دینا حالانکہ اس سے زیادہ عثمان کے قریب ترین لوگ موجود تھے ۔ { یعنی عثمان کے بیٹے }

۸۔معاویہ ، حافظ جریر بن عبدالحمید کی نظر میں :

حافظ جریر بن عبدالحمید صحاح الستہ کے راوی ہیں یعنی بخاری مسلم ابی داود ابن ماجہ الترمذی اور نسائی سب کے سب نے جریر سے روایت لی ہے ۔‌‌ان‌کو اھل سنت کی رجالی کتب نے ثقہ متفق علیہ اور عادل کے القاب دئیے ہیں جب کہ ذھبی نے اپنی کتاب سیر اعلام النبلائ میں‌‌ان‌کو امام حافظ اور قاضی کے القاب سے نوازا ہے اور‌‌ان‌کی کنیت ابوعبداللہ الضبی ہے ۔

جیسا کہ ابن حجر عسقلانی نے خلیلی سے نقل کیا ہے کہ جریر ثقہ متفق علیہ ہے

اور قتیبہ سے نقل کیا ہے کہ ہم نے جریر سے روایت لی ہیں لیکن

ولکنی سمعتہ یشتم معاویۃعلانیہ

میں نے جریر کو معاویہ پر علا نیہ سب و شتم کرتے ہوئے سنا ہے ۔

۹۔معاویہ عبدالرزاق الصنعانی کی نظر میں :

امام عبدالرزاق الصنعانی کبار علماء میں سے ہیں اور جریر بن عبدالحمید کی طرح یہ بھی رجال الستہ میں سے ہیں یعنی بخاری مسلم ترمذی ابوداود ابن ماجہ اور نسائی سب کے سب کے راوی ہے ۔

ابن حجر عسقلانی نے ابوداود سے روایت کی ہےکہ

کان عبدالرزاق یعرض بمعاویہ

عبد الرزاق ہمیشہ معاویہ کو اپنے تنقید کا نشانہ بناتا تھا اور اس پر اشکالات کرتا تھا۔

ذھبی نے مخلد الشعیری سے روایت کی ہے کہ

میں عبدالرزاق کے پاس تھا کہ ایک شخص نے معاویہ کا ذکر ہے تو عبدالرزاق نے کہا کہ

لا تقذر مجلسنا بذکر ابن ابی سفیان

ہماری مجلس کو ابوسفیان کے بیٹے کے ذکر سے گندا مت کرو۔

عبد الرزاق اور جریر بن عبدالحمید دونوں کے دونوں اھل سنت کے ہاں قابل احترام ہیں اور اھل سنت کے اماموں میں سے ہیں ۔ اور دونوں صحاح الستہ جیسی اھل سنت کی معتبر کتابوں کے راوی بھی ہیں ۔ نہیں پتہ کیوں اھل سنت معاویہ کے بارے میں‌‌ان‌دونوں بزرگوں کے راستے پر نہیں چلتے ؟

۱۱۔معاویہ، علامہ تفتازانی کی نظر میں:

سعد الدین مسعود بن عمر بن عبد الله التفتازانی المتوفی 791 ہجری قمری نے اپنی کتاب شرح المقاصد فی علم کلام میں لکھا ہے کہ

ذهب الأکثرون إلى أن أول من بغى فی الإسلام معاویة ۔۔۔۔۔ إذ لیس کل صحابی معصوما ولا کل من لقی النبی صلى الله علیه وسلم بالخیر موسوما

اکثر علماء یہ کہتے ہیں کہ اسلام میں سب سے پہلے بغاوت معاویہ نے کی ہے ۔۔۔۔ کیونکہ تمام صحابی معصوم نہیں ہے اور نہ ہی ضروری ہے کہ جس نے بھی رسول اللہ کو دیکھا ہو تو اس کا ذکر خیر کے ساتھ ہوجائے۔

۱۲۔معاویہ ، جاحظ الکنانی کی نظر میں:

أبو عثمان عمرو بن بحر بن محبوب بن فزارة اللیثی البصری المتوفی 255 ھجری کاتب اور ادیب رہے ہیں ۔ انہوں نے مختلف موضوعات پر کتابیں لکھی ہیں‌‌ان‌میں سے کتاب البیان و التبیین اور کتاب الحیوان بہت معروف ہیں ۔ یہ معاویہ پر شدید طعن کرتے تھے۔

جاحظ نے لکھا ہے کہ

جب معاویہ حکومت پر چھا گیا اور شوری کو پاوں نیچے دبا دیا اور انصار اور مہاجرین پر قبضہ کیا اس سال کو سال جماعت کا نام دیا گیا ہے جبکہ حقیقت میں وہ سال جماعت نہیں بلکہ تفرقہ کا سال تھا قہر کا سال تھا جبر و غلبہ کا سال تھا ۔ اسی سال میں امامت ایک کسروی حکومت بنی اور خلافت قیصری منصب بنی اور اس کے جرم بڑھتے گئے حتی کہ رسول اللہ کے مشہور و معروف احکام کی مخالفت شروع ہوگئی اور زیاد بن ابیہ کو جو کہ ولد الفراش کے حکم میں ہے زنا کے طریقے سے اپنا بھائی قرار دیا کہ جس پر امت کا اجماع ہے کہ سمیہ نے ابوسفیان کے ساتھ فرش پر رات نہیں گزاری ہے ، تو ایسے کاموں کی وجہ سے معاویہ فاجرین کے حکم سے کافرین کے حکم میں داخل ہوا۔

شہیر جاحظ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی جنگوں میں وہ قوانین استعمال کرتے تھے کہ جو قرآن و سنت کے مطابق تھے اور معاویہ دھوکوں اور چلاکیوں سے کام لیتا تھا اور جنگ میں ھندوستان کے بادشاہوں خاقان اور فنغور کے راستے پر چلتا تھا ۔

اور حضرت علی اپنی لشکر کو فرمایا کرتے تھے کہ کبھی بھی جنگ کا آغاز مت کرنا اور زخمی‌پر حملہ مت کرنا اور بند دروازوں کو مت کھولنا۔

اور جناب شہیر جاحظ نے مزید وہ کچھ لکھا ہے کہ اگر انسان اس کو پڑھے تو حیران ہوجائیگا کہ کس طرح کے انسان کو آج مسلمان رضی اللہ کہتے ہیں ۔

فرماتے ہیں کہ

کان معاویۃ یوتی بالجاریۃ فیجردھا من ثیابھا بحضرۃ جلسائہ ویضع القضیب علی رکبھا

معاویہ ایک لونڈی کے ساتھ دربار میں حاضر ہوتا تھا اور پھر سب کے سامنے لونڈی کو عریان کرتا تھا اور اپنے ذَ کر کو اس کی ران پر رکھتا تھا ۔

۱۳۔معاویہ، علی بن جعد کی نظر میں:

علی بن جعد کسی تعارف کا محتاج نہیں اھل سنت کے ہاں اس کو امام حافظ اور حجت کا لقب دیا گیا ہے اور یہ بخاری اور ابو داود کے راوی بھی ہیں

کتاب مسائل الامام احمد بن حنبل میں اسحاق بن ابراھیم بن ھانی النیشاپوری نے یہ روایت نقل کی ہے

سمعت اباعبداللہ قال لہ دلویہ سمعت علی بن جعد یقول :

مات واللہ معاویہ علی غیر الاسلام

اسحاق بن ابراھیم بن ھانی النیشاپوری احمد بن حنبل کے توسط سے علی بن جعد سے روایت نقل کرتے ہیں کہ وہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم معاویہ کی موت غیر اسلام پر ہوئی ہے

۱۴۔معاویہ، ابن عباس کی نظر میں :

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کے چچا زاد عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی نظر میں معاویہ حمار ہے یعنی گدھا۔

حدثنا قال ثنا عبد الوهاب عن [بن] عطاء قال أنا عمران بن حدیر عن عکرمة أنه قال کنت مع بن عباس عند معاویة نتحدث حتى ذهب هزیع من اللیل فقام معاویة فرکع رکعة واحدة فقال بن عباس من أین ترى أخذها الحمار

عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ میں ابن عباس کے ساتھ معاویہ کے پاس تھا ہمیں باتیں کرتے رات کا ایک حصہ گزر گیا پس معاویہ نے کھڑے ہوکر ایک رکعت پڑھی تو ابن عباس نے کہا کہ اس گدھے نے یہ چیز کہاں سے لی ہے۔

تاریخ یعقوبی میں ذکر ہے کہ جب معاویہ حج کے لئے مکہ چلا گیا تو اس نے وہاں بنی ھاشم سے ملاقات کی اور بنی ھاشم کو کہا کہ میں نے تم لوگوں کو چھوڑا ہے حالانکہ تم لوگ عثمان کے قاتل ہو،

عبد اللہ بن عباس نے جواب دیا کہ اے معاویہ جو کچھ تو نے کہا یہ سب تمھارا شر ہے اے معاویہ اللہ کی قسم‌‌ان‌باتوں کا تم ہی اھل ہو کیونکہ تم نے عثمان کو قتل کیا ہے اور پھر لوگوں کو تم نے دھوکہ دیا اور خون عثمان کے قصاص کا مطالبہ کرنے لگے ۔

۱۵۔معاویہ، معاویہ بن یزید کی نظر میں:

ابن حجر نے صواعق المحرقہ میں لکھا ہے کہ

یزید کے مرنے کے بعد جب یزید کے بیٹے معاویہ بن یزید کو یزید کے تخت پر بٹھایا گیا تو اس نے ممبر پر جاکر ایک خطبہ دیا اور کہا کہ

یہ خلافت اللہ کی رسی ہے اور میرے دادا معاویہ بن ابی سفیان نے اسی خلافت پر اس سے لڑائی کی جو خلافت کے لئے اھل تھااور کون علی بن طالب سے زیادہ اس خلافت کا حقدار ہے ؟ { یعنی فقط مولا علی ہی حق دار ہیں] اور میرے دادا نے تم لوگوں کو اپنے ساتھ ملایا یہاں تک کہ وہ اپنی آرزو تک پہنچ گیا اور پھر اس دنیا سے چل بسا ایسی حالت میں کہ اپنے سارے گناہ اپنے ساتھ قبر لے گیااور اس کے بعد میرے باپ { یزید بن معاویہ} نے اس خلافت پر قبضہ کیا حالانکہ وہ اس خلافت کا لائق نہیں تھا اور رسول اللہ {صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم} کی بیٹی { فاطمہ زھرا سلام اللہ علیہا} کے بیٹے سے نزاع اور جنگ کی اسی جنگ کی وجہ سے اس کی عمر کم ہوئی اور وہ بھی اپنے گناہ اپنے ساتھ قبر لے گیا ۔ اس کے بعد معاویہ بن یزید رویا اور کہا کہ ہم نے یزید کا غلط راستہ دیکھا کیونکہ اس نے عترت رسول اللہ کو قتل کیا اور شراب کو مباح قرار دیا اور کعبہ کی حرمت کو پامال کیا ۔ لیکن میں نے خلافت کا ذائقہ بھی نہیں چکھا اور میں تو‌‌ان‌کے راستے پر نہیں چلوں گا تم سمجھو اور تمھاری حکومت ۔ اللہ کی قسم اگر یہ دنیا خیر ہے تو ہم نے اپنا حصہ اس سے لے لیا ہے اور یہ دنیا شر ہے تو آل ابی سفیان کے لیے کافی ہے وہ کچھ جو انہوں نے انجام دیا ۔

اس کے بعد معاویہ بن یزید اپنے گھر چلا گیا اور باہر کے لوگوں سے لا تعلق ہوا یہاں تک کہ چالیس دن بعد فوت ہوا۔

۱۶۔معاویہ، شریک بن عبداللہ کی نظر میں:

ابو عبداللہ محمد بن احمد بن عثمان الذھبی نے اپنی کتاب میزان الاعتدال فی نقد الرجال جلد ۲ ص ۲۷۳ چاپ دار المعرفہ بیروت میں لکھا ہے کہ

قال له الناس یقولون انک شاک قال یا احمق کیف اکون شاکا لوددت انی کنت مع علی فخضبت یدی بسیفی من دما ئهم

لوگوں نے شریک کو کہا کہ کہا جاتا ہے کہ تم علی اور معاویہ کے بارے میں شک میں مبتلا ہو { یعنی تم‌‌ان‌دونوں کے بارے میں اپنا موقف نہیں رکھتے }

تو شریک نے کہا کہ اے احمق : کیسے میں شک میں مبتلا ہوں ۔ میری تو خواھش ہے کہ میں علی علیہ السلام کے زمانے میں ہوتا تو اپنا ہاتھ‌‌ان‌کے { معاویہ اور اس کے ساتھیوں} خون سے اپنی تلوار کے ذریعے سے رنگین کرتا۔

ابو عبداللہ محمد بن احمد بن عثمان الذھبی نے اپنی کتاب میزان الاعتدال فی نقد الرجال جلد3 ص 376 چاپ دارالکتاب بیروت میں لکھا ہے کہ

وروی أن قوما ذکروا معاویة عند شریک فقیل کان حلیما <

تعداد صفحات : 1

آمار سایت
  • کل مطالب : 13
  • کل نظرات : 0
  • افراد آنلاین : 1
  • تعداد اعضا : 0
  • بازدید امروز : 1
  • بازدید کننده امروز : 2
  • باردید دیروز : 6
  • بازدید کننده دیروز : 7
  • گوگل امروز : 0
  • گوگل دیروز : 0
  • بازدید هفته : 29
  • بازدید ماه : 277
  • بازدید سال : 456
  • بازدید کلی : 15660
  • کدهای اختصاصی